باسمتی چاول کا گرتا معیار لیکن پاکستان، انڈیا کے ملکیت کے دعوے

ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر باسمتی کی مانگ اگلے چند سالوں میں دگنی ہو سکتی ہے تاہم کسان اور چاول کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ منفرد نسل ناپید ہونے کے قریب ہے۔

26 ستمبر 2024 کو کراچی میں ایک دکان پر مختلف اقسام کے چاول موجود ہیں جن میں باسمتی بھی شامل ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان باسمتی چاول کے نام کے حقوق کے حصول کے کوششیں جاری ہیں (آصف حسن/ اے ایف پی)

جہاں باسمتی چاول دنیا بھر میں ایک مرغوب غذا کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں وہیں روایتی حریفوں پاکستان اور انڈیا کے مابین اس کی ملکیت پر تنازع اس سے متعلق ایک اہم مسئلے کو نظر انداز کر رہا ہے۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق انڈین حکام عالمی منڈیوں میں باسمتی چاول کو ’انڈین پروڈکٹ‘ تسلیم کرانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی پاکستان سخت مخالفت کر رہا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ یہ چاول دونوں ممالک کی مشترکہ وراثت کا حصہ ہے۔

مورخین کا کہنا ہے کہ باسمتی چاول کبھی رومی سلطنت کو برآمد کیا جاتا تھا اور آج امریکہ اور یورپ میں اس کی مانگ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس لڑائی کے دوران خوشبودار اور لمبے چاول کو لاحق خطرہ دونوں ممالک کی نظروں سے اوجھل ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر باسمتی کی مانگ اگلے چند سالوں میں دگنی ہو سکتی ہے جو 2032 تک تقریباً 27 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے تاہم کسان اور چاول کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ منفرد نسل ناپید ہونے کے قریب ہے۔

باسمتی کی ابتدا

باسمتی کا نام ایک قدیم انڈو-آریائی لفظ سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معنی ’خوشبودار‘ ہیں۔ اس خطے کے لوگ اس چاول کو انتہائی عقیدت سے دیکھتے ہیں۔

باسمتی کا تعلق انڈیا اور پاکستان میں تقسیم پنجاب میں گہرے طور پر جڑا ہوا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ اس چاول کی ابتدائی اقسام یہاں 2000 سال پہلے اگائی گئی تھیں۔

ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق، یہاں تقریباً 2000 سال پہلے باسمتی کی ابتدائی اقسام کاشت کی جا چکی تھیں جبکہ اس کا تحریری ذکر 16ویں صدی میں ملتا ہے جب مغلیہ سلطنت برصغیر پر حکمرانی کر رہی تھی۔

پاکستانی چاول برآمد کنندہ راجہ ارسلان اللہ خان نے کہا: ’یہ بادشاہوں اور شہنشاہوں کی خوراک تھی۔‘

1930  کی دہائی میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت نے باسمتی کی پہلی معیاری قسم کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا جس پر تحقیق اُس وقت کی گئی تھی جب یہ علاقہ برطانوی راج کا حصہ تھا۔

باسمتی کو بین الاقوامی سطح پر کامیابی حاصل کرنے میں وقت لگا۔ ابتدا میں اسے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں برآمد کیا گیا جہاں بریانی کا رواج بڑھ رہا تھا۔ بعد میں اسے جنوبی ایشیائی تارکین وطن کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یورپ اور امریکہ میں متعارف کرایا گیا۔

شروع سے ہی انڈیا اور پاکستان اس بحث میں الجھے رہے کہ کون سا باسمتی چاول بہتر ہے اور اس نام پر کس کا حق ہے۔ 1965 کی پاکستان انڈیا جنگ کے دوران پاکستانی کسانوں نے انڈٰین فوجیوں پر الزام لگایا کہ وہ ان کے ’کرنل باسمتی‘ کے بیج چرا کر لے گئے جبکہ انڈیا نے بعد میں پاکستان پر اپنی مشہور اقسام کی نقل کرنے کا الزام لگایا۔

37 سالہ پاکستانی شیف محمد نواز نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا: ’وہ لمحہ خاص ہوتا ہے جب آپ دیگچی کا ڈھکن اٹھاتے ہیں اور اس سے بھاپ نکلتی ہے۔ یہ خوشبو آپ کی سانسوں میں بس جاتی ہے اور آپ کو مدہوش کر دیتی ہے۔‘

کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ خوشبو کب اور کیسے کم ہوئی لیکن سب اس بات پر متفق ہیں کہ آج کل کے باسمتی چاول میں وہ پرانی مہک اور ذائقہ باقی نہیں رہا، چاہے اس پر باسمتی کا لیبل ہی کیوں نہ لگا ہو۔

دیسی بیجوں کے تحفظ کے لیے انڈیا کے کسانوں کے ساتھ کام کرنے والے ماہر ماحولیات دیبال دیب نے کہا کہ ’باسمتی کا اصل مالک کون ہے؟ دونوں ممالک کا اس پر جھگڑنا توانائی کا ضیاع ہے کیوں کہ نئے کسانوں نے باسمتی کے روایتی جینیاتی خالص پن کو برقرار رکھنے کا علم کھو دیا ہے۔‘

1980  کی دہائی میں انڈین اور پاکستانی کسانوں نے مارکیٹ میں برتری حاصل کرنے کی دوڑ میں ایسی اقسام کاشت کرنا شروع کیں جو تیزی سے پروان چڑھنے اور زیادہ پیداوار دینے والی تھیں لیکن ان میں باسمتی کی روایتی مہک اور ذائقہ موجود نہیں تھا۔

جیسے جیسے چھوٹے کھیت بڑی زرعی کمپنیوں میں تبدیل ہوتے گئے، تیز تر فصلیں، پروسیسنگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں زمین کی زرخیزی میں کمی نے باسمتی کے معیار کو متاثر کیا۔

تاہم برآمد کنندگان کے مطابق مغربی صارفین اس فرق کو محسوس نہیں کر سکتے۔

باسمتی کا مستقبل غیر یقینی

پاکستان میں اس بات کے درست اعداد و شمار موجود نہیں ہیں کہ روایتی باسمتی چاول کتنا اگایا جا رہا ہے لیکن ماہرین اور برآمد کنندگان اس پر متفق ہیں کہ زیادہ تر پیداوار نئی، زیادہ پیداواری اقسام پر مشتمل ہے۔

دوسری طرف 2019 میں انڈیا کے پنجاب میں اگایا جانے والا تقریباً 70 فیصد باسمتی ’پوسا باسمتی 1121‘ یا ‘PB 1121’ نامی نئی قسم پر مشتمل تھا جو روایتی باسمتی کے مقابلے میں کم خوشبودار اقسام ہیں۔

اب یہ رجحان تبدیل ہونے کا امکان نہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق کسان PB 1121 کی ایک ہیکٹر پیداوار سے اوسطاً 1400 ڈالر کماتے ہیں جو کہ پرانی اقسام سے حاصل ہونے والے 650 ڈالر کے مقابلے میں دوگنا ہے۔

دیبال دیب، جو روایتی بیجوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کام کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ وہ اپنے سیڈ بینک میں ہر قسم کی جینیاتی خالص پن کو برقرار رکھتے ہیں اور انہیں کسانوں میں مفت تقسیم کرتے ہیں۔

ان کے مطابق اگر خطے میں بڑے پیمانے پر اقدامات نہ کیے گئے تو مقامی اقسام کی اصل خوشبو اور ذائقہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ادھر پاکستان میں لوگ کہتے ہیں کہ باسمتی ہمیشہ ان کے دسترخوان پر رہے گا چاہے وہ پہلے جیسا نہ بھی ہو۔

لاہور کے ایک ریسٹورنٹ کے مالک فقیر حسین نے برسوں پہلے سستے لمبے دانے والے چاول کو اپنا لیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’لوگ شاید بھول ہی جائیں کہ روایتی باسمتی چاول کبھی موجود تھا۔‘

پاکستان کے کئی کاروباری افراد کی اکثریت کے لیے باسمتی چاول سے جذباتی وابستگی کمزور پڑ چکی ہے اور روایتی باسمتی خریدنے کی استطاعت بھی نہیں رہی۔

لاہور کے 52  شہری ثاقب الرحمن سمجھتے ہیں کہ اگر پرانی اقسام استعمال کی جائیں تو ریسٹورنٹ میں کھانے کی قیمت دگنی ہو جائے گی۔

پاکستان اور انڈیا میں کس کا باسمتی بہتر ہے؟

دونوں ممالک کے درمیان کئی تنازعات ہیں لیکن باسمتی پر بھی دونوں ہمسائے اپنا حق اور بہتر معیار رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

55 سالہ پاکستانی کسان چوہدری ارشد محمود نے کہا کہ ’ہمارے چاول انڈیا کے مقابلے میں کوالٹی کے لحاظ سے کہیں بہتر ہیں۔‘

انڈین ماہر، گنیش ہنگمیر جو دونوں ممالک میں باسمتی کے گرتے ہوئے معیار سے پریشان ہیں، انڈیا اور پاکستان کے درمیان اس لڑائی اور دعوؤں سے سخت اختلاف کرتے ہیں۔

ان کے بقول: ’اگر آپ کا معیار گر رہا ہے تو آپ کا کوئی حق نہیں کہ اس پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کریں۔‘

لاہور کے چاول کے سپلائر صبور احمد نے کہا: ’حالیہ دہائیوں میں انڈیا نے عالمی باسمتی چاول کی مارکیٹ میں برتری حاصل کر لی تھی۔ اس کی کامیاب مارکیٹنگ حکمت عملیوں اور برآمدی پالیسیوں نے پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جو بہت دیر سے اس دوڑ میں شامل ہوا۔‘

انڈیا میں باسمتی چاول کے کاروباری حکمت عملی کے ماہر یوگراج دیپ سنگھ نے کہا کہ پاکستان مزید مارکیٹ شیئر حاصل کرنے کے مواقع تلاش کر رہا ہے جیسا کہ 2018 کے بعد کیا گیا جب یورپ کو انڈین برآمدات نئے یورپی یونین کے کیڑے مار ادویات کے اصولوں کی وجہ سے متاثر ہوئیں۔

ان کے بقول: ’لیکن آئیے ایمانداری سے بات کریں، ان کی قسم ہماری جیسی ہی ہے، ہم اس پر لڑ کیوں رہے ہیں؟‘

نئی دہلی کی جانب سے عالمی سطح پر باسمتی چاول کو اپنی ملکیت کے طور پر تسلیم کرانے کی کوششیں زیادہ تر تعطل کا شکار ہیں۔ اگرچہ یورپی یونین میں ایک انڈین کیس زیر غور ہے، لیکن آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے ایسی قانونی درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا