فلسطینی تنظیم حماس کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے اتوار کو غزہ کی پٹی کے درمیان سے گزرنے والی ایک اہم سڑک خالی کر دی۔
اسرائیلی فوج کی واپسی اس فائر بندی معاہدے کا حصہ ہے جس کے بارے میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اس پر عمل کر رہا ہے۔
حماس کے زیر انتظام وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ ’اسرائیلی فورسز نے اپنے ٹھکانے اور فوجی چوکیاں ہٹا دی ہیں اور نتزارم راہ داری سے مکمل طور پر اپنے ٹینک واپس بلا لیے ہیں جو صلاح الدین روڈ پر واقع ہے۔ اس کے بعد گاڑیوں کو دونوں سمتوں میں آزادانہ طور پر گزرنے کا موقع مل گیا۔‘
اے ایف پی کے صحافیوں نے اتوار کو علاقے میں کوئی اسرائیلی فوجی نہیں دیکھا جب کہ گاڑیاں، بسیں، پک اپ ٹرک اور یہاں تک کہ گدھا گاڑیاں بھی سڑک کے دونوں جانب، شمال اور جنوب سے گزرتی رہیں اور نتزارم کوریڈور عبور کیا جہاں پہلے اسرائیلی ناکہ قائم تھا۔
ایک سرکردہ حماس عہدے دار کے مطابق فائر بندی معاہدے کی شرائط کے تحت نتزارم سے اسرائیلی فوج کی واپسی اتوار کو ہونا طے تھا۔
فائر بندی معاہدے پر 19 جنوری سے عمل شروع ہوا جب اسرائیلی جارحیت کو 15 ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا تھا۔
اے ایف پی آزادانہ طور پر فائر بندی معاہدے کی تفصیلات کی تصدیق نہیں کر سکا کیوں کہ یہ معاہدہ عام نہیں کیا گیا۔
اتوار کے انخلا کے بارے میں ایک اسرائیلی سکیورٹی عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر اے ایف پی کو بتایا: ’ہم سیاسی قیادت کی ہدایات کے مطابق جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔‘
غزہ کی پٹی کی وزارت صحت نے ہفتے کو بتایا کہ اسرائیلی حملوں میں اب تک فلسطینی علاقے میں کم از کم 48 ہزار 181 افراد کی جان جا چکی ہے۔
ادھر اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس متنازع منصوبے کی حمایت کی جس میں فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنے کی تجویز دی گئی۔
اس منصوبے کو عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہے، تاہم نتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل اس کام کے لیے تیار ہے۔
فاکس نیوز کو ہفتے کی رات دیے گئے ایک انٹرویو میں، جب وہ واشنگٹن کے دورے کے اختتام پر تھے، نتن یاہو نے ٹرمپ کے اس منصوبے کا دفاع کیا جسے مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر میں تشویش اور مذمت کا سامنا کرنا پڑا۔
نیتن یاہو نے کہا ’میں سمجھتا ہوں کہ صدر ٹرمپ کی تجویز کئی برسوں میں پہلی تازہ اور نئی سوچ ہے اور اس میں غزہ کی صورت حال کو مکمل طور پر بدلنے کی صلاحیت موجود ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ فلسطینی علاقے کے مستقبل کے لیے ایک ’درست حکمت عملی‘ ہے۔
نیتن یاہو نے وضاحت کی کہ ’ٹرمپ کا کہنا صرف اتنا ہےکہ میں دروازہ کھولنا چاہتا ہوں اور انہیں یہ اختیار دینا چاہتا ہوں کہ وہ عارضی طور پر کسی اور جگہ منتقل ہو جائیں جب کہ ہم غزہ کو دوبارہ تعمیر کریں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ٹرمپ نے کبھی نہیں کہا کہ وہ یہ کام امریکی فوج سے کرانا چاہتے ہیں۔ سوچیں کہ کیا ہو گا؟ ہم یہ کام خود کریں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیل نے 1967 میں غزہ کی پٹی پر قبضہ کیا تھا اور 2005 تک وہاں اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھی جب اس نے اپنے آباد کاروں اور فوجیوں کو وہاں سے نکال لیا۔
نتن یاہو نے کہا کہ ٹرمپ کا منصوبہ روایتی طریقہ کار سے ہٹ کر نیا راستہ ہے۔ انہوں نے ماضی کے تجربات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے۔ ہم غزہ سے نکلتے ہیں اور وہ دوبارہ دہشت گردوں کے قبضے میں چلا جاتا ہے، جو اسے اسرائیل پر حملوں کے لیے اڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ کہیں ختم نہیں ہوتا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے ہمیں اس تجویز پر عمل کرنا چاہیے۔‘
لیکن ساتھ ہی خبردار کیا کہ ’اصل مسئلہ‘ وہ ملک تلاش کرنا ہے جو غزہ سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو قبول کرنے پر آمادہ ہو۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ جو فلسطینی دوسری جگہ منتقل کیے جائیں گے، انہیں واپس غزہ آنے کے لیے ’دہشت گردی سے دستبردار‘ ہونا پڑے گا۔
فلسطینیوں کے لیے انہیں غزہ سے نکالنے کی کوئی بھی کوشش 1948 میں اسرائیل کے قیام کے دوران ہونے والی جبری بے دخلی، جسے عرب دنیا ’نکبہ‘ یا تباہی کہتی ہے، کی تلخ یادیں تازہ کر دے گی۔
نیتن یاہو نے کہا: ’سبھی غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل قرار دیتے ہیں۔ تو آبادی کو باہر نکالو، انہیں جانے دو۔ یہ کوئی جبری بے دخلی نہیں، کوئی نسلی تطہیر نہیں۔
’یہ صرف ان لوگوں کو نکالنا ہے جنہیں دنیا کے بہت سے ممالک اور انسانی حقوق کے کارکن خود ایک کھلی جیل میں قید سمجھتے ہیں۔ اگر آپ انہیں قیدی مانتے ہیں، تو پھر انہیں یہاں قید کیوں رکھ رہے ہیں؟‘