فوج میں سول ملازم اگر جاسوسی کرے تو ٹرائل کہاں ہو گا؟ آئینی بینچ کا سوال

سپریم کورٹ میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق اپیلوں کی سماعت کے دوران آئینی بینچ کے جج جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرمی میں سول ملازمین بھی ہوتے ہیں، اگر سول ملازم دشمن ملک کے لیے جاسوسی کرے تو ٹرائل کہاں ہو گا؟

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا بیرونی منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق اپیلوں کی سماعت کے دوران آئینی بینچ کے جج جسٹس محمد علی مظہر نے اہم نکات اٹھائے کہ آرمی میں سول ملازمین بھی ہوتے ہیں، اگر سول ملازم، ملازمت کی آڑ میں دشمن ملک کے لیے جاسوسی کرے تو ٹرائل کہاں ہوگا؟ 

بدھ کے روز آئینی عدالت کے سات رکنی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔

بینچ میں دیگر ججوں میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد مظہر علی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔

دوران سماعت فوجی عدالت سے ایک سزا یافتہ کے وکیل سلمان اکرم نے دلائل دیے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے دوران سماعت دلائل سنتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’پانچ رکنی بینچ نے سیکشن ٹو ڈی ختم کر دیا تھا سیکشن ٹو ڈی ختم ہونے کے بعد جاسوس عناصر کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا۔‘

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’آرمی میں موجود سول ملازمین آرمی ایکٹ کے تابع ہوتے ہیں۔‘ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ’آرمی ایکٹ کے تابع ہونے پر نوکری سے فارغ کردیا جائے گا، لیکن سیکشن ٹو ڈی کی عدم موجودگی میں ٹرائل کہاں ہو گا؟‘ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی سوال اٹھایا کہ ’آرمی ایکٹ کے تابع سول ملازم جاسوسی پر تادیبی کاروائی الگ اور ملٹری ٹرائل الگ ہو گا؟‘

سلمان اکرم راجہ نے جواباً کہا کہ ’ایسا نہیں کہ ٹو ون ڈی شق کے بغیر ریاست کا کاروبار نہیں چل سکتا۔‘

آرمی ایکٹ سیکشن ٹو ون ڈی کیا ہے؟

ایڈووکیٹ انعام الرحیم کے مطابق 1965 کی پاکستان اور انڈیا کی جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان جو مذاکرات ہوئے تھے، ان کے خلاف پاکستان میں بھی مظاہرے شروع ہو گئے تھے، جس کے بعد آرمی ایکٹ میں ٹو ون ڈی کا اضافہ کیا گیا تھا، جس کے تحت عام شہریوں کے مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں چلائے جا سکتے تھے۔‘

سویلین مڈل مین خفیہ راز دشمن کو دے تو ٹرائل کہاں ہو گا؟

جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ ’اگر کوئی سویلین مڈل مین خفیہ  راز دشمن کے حوالے کرنے تو ٹرائل کہاں ہو گا؟‘ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ’اس کا ٹرائل سپیشل انڈر آفیشیل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہو گا۔

’آفیشیل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کا مکمل طریقہ کار موجود ہے، میں اصول اور قانون کے خلاف اپنی مرضی سے توڑ موڑ کر دلائل نہیں دوں گا، کلبھوشن کا کیس آپ کے سامنے ہے، دنیا میں ایسا نہیں ہوتا، آئینی بنیادی حقوق دے کر ایک انگلی کے اشارے سے چھین لیے جائیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کمانڈنگ آفیسر کہے مجھے فلاں ملزم کو میرے حوالے کرو۔‘

سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ ’میں نے ریکارڈ چیک کیا ہے، دسمبر 1967 میں پارلیمنٹ کے ذریعے سیکشن ٹو ون ڈی ٹو کی منظوری کی گئی تھی، سپریم کورٹ ایف بی علی کیس پر نظرثانی کیے بغیر آرمی ایکٹ کی شقوں کا جائزہ لے سکتی ہے۔‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ ’کیا ہم آئین کے پابند ہیں یا عدالتی فیصلے کے پابند ہیں۔‘ سلمان راجہ نے جواب دیا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام ہے، لیکن عدالت کے لیے ضروری نہیں ہیں۔‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے مکالمہ کیا ’اگر آئین میں تبدیلی ہو جائے تو کیا ہو گا۔‘ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ’پھر تو صورت حال ہی مختلف ہو گی، ایف بی علی کیس فیصلے کے وقت آرٹیکل 175 کی شق تین نہیں تھی۔‘

ہم نے مرکزی فیصلے پر نظرثانی کرنی ہے

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ’ہم نے مرکزی فیصلے پر نظرثانی کرنی ہے، یکسانیت بھی لانی ہے، تشریح بھی کرنی ہے، پتہ نہیں اور کیا کیا کرنا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سلمان راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بند دروازوں کے پیچھے شفاف ٹرائل نہیں ہو سکتا، 19ویں صدی والا کورٹ مارشل اب پوری دنیا میں تبدیل ہو چکا ہے، 2025 میں 1860 والے کورٹ مارشل کی کارروائی کا اطلاق یونیفارم پرسنل پر بھی نہیں ہو سکتا، پتہ نہیں دو سال تک کیا ہوتا رہا، ایک کاغذ تک باہر لے کر جانے کی اجازت نہیں تھی، ضمانت کا حق بھی حاصل نہیں۔‘

اس موقعے پر وکیل اعتزاز احسن نے عدالت میں کہا کہ ’میں ایف بی علی کیس میں ایاز سپرا اور میجر اشتیاق آصف کا وکیل رہا، اس وقت ٹرائل اٹک جیل میں ہوتا تھا، ٹرائل کے بعد ریکارڈ جلا دیا جاتا تھا، جب ٹرائل ختم ہوتا ہماری اٹک قلعے سے نکلتے ہوئے مکمل تلاشی کی جاتی تھی، ایک کاغذ تک نہیں لے کر جانے دیا جاتا تھا۔‘

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ’اس وقت مارشل لاء کا دور تھا۔‘

دوران سماعت جسٹس نعیم اختر افغان کا سلمان راجہ سے دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ’ہلکے پھلکے انداز میں کہہ رہا ہوں، بُرا نہ مانیے گا، آپ کی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ آج کل سیاسی وابستگی بھی ہے، جب آپ کی سیاسی پارٹی کی حکومت تھی اس وقت آرمی ایکٹ میں ایک ترمیم کی گئی، اس وقت پارلیمنٹ نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی۔‘

سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا ’میں اس وقت پی ٹی آئی کا حصہ نہیں تھا، میں تو ہمیشہ اپوزیشن کی طرف رہا۔‘

اس کے بعد عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ سلمان اکرم راجہ جمعرات کو بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

سلمان اکرم راجہ کی جانب سے اعتزاز احسن لطیف کھوسہ فیصل صدیقی دلائل دیں گے۔ جبکہ وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل مکمل ہو چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان