سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئینی بینچز کی تشکیل کے لیے اجلاس میں آرٹیکل 191 اے کے تحت مقدمات کی کلرکوڈنگ (فائل میں مخصوص رنگ دینے) اور آئینی بینچ کو پانچ رکنی رکھنے کے فیصلے کیے گئے۔
سپریم کورٹ پیر کو جاری کیے گئے ایک اعلامیے کے مطابق آئینی بینچز کی تشکیل کے لیے جسٹس امین الدین خان کے چیمبر میں اجلاس ہوا، جس میں بینچز کے امور کا جائزہ لیا گیا اور آئینی بینچز کے کام کرنے کے طریقہ کار سمیت دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ آرٹیکل 184کی ذیلی شق ایک، آرٹیکل 184 کی ذیلی شق تین کے کیس زیرالتوا ہیں، جب کہ آرٹیکل 186 سمیت انسانی حقوق کے مقدمات بھی سماعت کے منتظر ہیں۔
اجلاس میں 26 ویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 191 اے کے تحت مقدمات کی کلرکوڈنگ کا فیصلہ کیا گیا اور سپریم کورٹ کے سینیئر ریسرچ آفیسر مظہرعلی خان کو آرٹیکل 199 کے مقدمات کی سکروٹنی کا ٹاسک سونپا گیا۔
سپریم کورٹ سے جاری ہونے والے ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنا اور بینچز کے بیٹھنے کا فیصلہ دو سینیئر ممبران کی مشاورت سے ہو گا اور کورٹ روسٹر کے اجرا، ہفتے کے مقدمات کے لیے بھی دو سینیئر ممبران کی مشاورت سے فیصلے ہوں گے۔
اعلامیے کے مطابق جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمدعلی مظہر پر مشتمل کمیٹی آئینی بینچ بنائے گی اور آئندہ اجلاس کے بعد میں شیڈول کیا جائے گا۔
اعلامیے کے مطابق تین رکنی ججز کمیٹی کم از کم پانچ ججز پر مشتمل آئینی بینچ بنائے گی تاہم کمیٹی کے ایک رکن جج بیرون ملک ہیں، ان کی وطن واپسی پر کمیٹی اجلاس طلب کیا جائے گا۔
’آئینی و غیر آئینی بینچ‘
اس سے قبل پیر کی صبح آئینی بینچ کی عدم موجودگی میں سپریم کورٹ میں ٹیکس سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’اس وقت کوئی آئینی بینچ نہیں تو یہ جو غیر آئینی بینچ بیٹھا ہے اس کا کیا کرنا ہے۔ اب بار بار یہ سوال سامنے آ رہا ہے کہ کیس ریگولر بینچ سنے گا یا آئینی بینچ؟‘
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پیر کو سپریم کورٹ میں ٹیکس کیس کی سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی شامل تھے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ’یہ کیس آئینی بینچ سنے گا۔ ہم ریگولر کیسز سن رہے ہیں۔‘
اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’جب تک آئینی بینچ نہیں بیٹھے گا کیا ہم غیر آئینی ہیں؟ مطلب ہے کہ جب تک آئینی بینچ نہیں بیٹھتا آئینی مقدمات نہیں سنے جائیں گے۔ ہم اس کیس کو سن بھی لیں تو کوئی ہمیں پوچھ نہیں سکتا۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر ہم کیس کا فیصلہ کر بھی لیتے ہیں تو کیا ہو گا؟ چلیں اگر ہم خود فیصلہ کر دیتے ہیں تو ہمیں کون روکنے والا ہے؟ نظر ثانی بھی ہمارے پاس آئے گی تو ہم کہہ دیں گے کہ ہمارا دائرہ اختیار ہے۔ آئینی مقدمات ریگولر بینچ نہیں سن سکتا۔ وکلا کی طرف سے بھی کوئی معاونت نہیں آ رہی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا کہ ’ابھی ہم یہ کیس سن سکتے ہیں یا نہیں؟‘
جسٹس منصور علی شاہ نے جواباً کہا کہ تھوڑا وقت دیں تو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔‘
جسٹس عائشہ ملک نے جواب دیا کہ ’آرٹیکل 2 اے کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اس کا فیصلہ کرے گی جس میں ابھی وقت لگے گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اس کا فیصلہ کرے گی کہ یہ کیس آئینی بینچ سنے گا یا ریگولر بینچ۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے کیس کے وکلا سے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’ہم آپ کی گزارش پر کوئی نکتہ نظر نہیں دے سکتے۔ اس کو ملتوی کر دیتے ہیں، ہم صرف گپ شپ لگا رہے ہیں۔‘
عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔
آئینی بینچ کا قیام
26 ویں آئینی ترمیم کے تحت آئینی بینچ کا قیام کیا جانا تھا جس میں تمام آئینی معاملات کے کیسز مقرر ہونا ہیں۔ آئینی بینچ کا قیام جوڈیشل کمیشن نے کرنا تھا۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت ہوا۔ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ کی منظوری دی تھی، جس کے تحت بینچ کے سینیئر ترین جج جسٹس امین الدین خان ہوں گے۔ اجلاس میں نئے تشکیل کردہ کمیشن کے تمام ارکان شریک ہوئے تھے۔
جسٹس امین الدین کی تقرری کی حمایت میں 12 رکنی کمیشن کے سات اراکین نے ووٹ دیا تھا جبکہ پانچ نے مخالفت کی۔
آئینی بینچ میں سپریم کورٹ کے جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس نعیم اختر افغان،جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
یہ بینچ 60 روز کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔
جسٹس امین الدین کے آئینی بینچ کا سربراہ بننے کے بعد جسٹس جمال مندوخیل بھی کمیشن کے رکن بن گئے ہیں۔ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان پہلے ہی جوڈیشل کمیشن کے رکن ہیں۔ نئی آئینی ترمیم کے تحت آئینی بینچ کے سربراہ کے جوڈیشل کمیشن کے رکن ہونے کی صورت میں ان کے بعد دوسرا سینیئر ترین جج کمیشن کا رکن مقرر ہو جائے گا۔