سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق اپیلوں پر جمعے کو سماعت میں جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو ملٹری ٹرائل کیوں نہ ہوا؟ پارلیمنٹ سب سے سپریم ہے، کیا پارلیمنٹ خود پر حملہ توہین نہیں سمجھتی؟‘
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو وزرات دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا آرمی ایکٹ اور قوانین میں فیئرٹرائل کا مکمل پروسیجر فراہم کیا گیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’آپ ملٹری ٹرائل کے کس فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں؟ جسٹس آفریدی، جسٹس عائشہ اور جسٹس آفریدی کے الگ الگ فیصلے ہیں۔‘
جس پر وکیل نے جواب دیا وہ کسی فیصلے کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے، جسٹس عائشہ ملک نے سیکشن دو ون ڈی ون کو فیئر ٹرائل کے منافی قرار دیا اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے قانونی سیکشنز پر رائے نہیں دی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 21 ویں ترمیم میں فیصلے کی اکثریت کیا تھی؟ وکیل نے جواب دیا کہ ’اکثریت نو ججز سے بنی تھی، 21 ویں ترمیم کا اکثریتی فیصلہ آٹھ ججز کا ہے۔ 21 ویں ترمیم کو اکثریت ججز نے اپنے اپنے انداز سے برقرار رکھا۔ ‘
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ 21 ویں ترمیم کو آٹھ سے زائد ججز نے درست قرار دیا۔ وکیل نے کہا کہ خصوصی ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ کا لیاقت حسین کیس کا فیصلہ نو ججز کا ہے، اس کیس میں ایف بی علی کیس کی توثیق ہوئی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا 21 ویں ترمیم کیس میں اکثریت ججز نے ایف بی علی کیس کو تسلیم کیا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ’کیا 21 ویں ترمیم کیس میں کسی جج نے ایف بی علی کیس پر جوڈیشل نظر ثانی کی رائے دی؟‘ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ’کسی جج نے نہیں کہا کہ ایف بی علی فیصلہ کا جوڈیشل ریویو ہونا چاہیے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فیصلے میں اٹارنی جنرل کے حوالے سے لکھا ہے کہ کیس کو نو مئی کے تناظر میں دیکھا جائے، جبکہ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ 21 جولائی 2023 کے آرڈر نو میں صرف نو مئی کی بات کی گئی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ نو مئی کے ملزمان کو ملٹری ٹرائل میں سزا پر اپیل کے حق سے حکومت نے انکار کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’نو مئی کا جرم تو ہوا ہے، عدالتی فیصلے میں نو مئی جرم پر کلین چٹ نہیں دی گئی۔ سوال ٹرائل کا ہے کہ ٹرائل کہاں پر ہو گا؟‘
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’اگر جرم آرمی ایکٹ میں فٹ ہو گا تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو گا۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’21 ویں ترمیم میں کہا گیا کہ سیاسی جماعتوں کے کیسز آرمی کورٹ میں نہیں چلیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سیاسی سرگرمی کی ایک حد ہوتی ہے، ریاست کی املاک پر حملہ ریاست کی سکیورٹی توڑنا سیاسی سرگرمی نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 21 ویں ترمیم کے بغیر دہشت گردوں کے خلاف ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا تھا۔ وکیل نے جواب دیا 21 ویں ترمیم میں قانون سازی دیگر مختلف جرائم اور افراد پر مبنی تھی۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ’پولیس اہلکار کی وردی پھاڑنا جرم ہے، یہاں کور کمانڈرلاہور کا گھر جلایا گیا۔ ایک دن ایک ہی وقت مختلف جگہوں پر حملے ہوئے، عسکری کیمپ آفسز پر حملے ہوئے۔ پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو جلایا گیا۔
’ماضی میں لوگ شراب خانوں یا گورنر ہاوس پر احتجاج کرتے تھے، پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ مختلف شہروں میں ایک وقت حملے ہوئے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو ملٹری ٹرائل کیوں نہ ہوا؟ پارلیمنٹ سب سے سپریم ہے، کیا پارلیمنٹ خود پر حملہ توہین نہیں سمجھتی؟‘
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ’سپریم کورٹ پر بھی حملہ ہوا وہ بھی سنگین تھا، سپریم کورٹ کو بھی شامل کریں۔‘
اس پر وکیل نے جواب دیا کہ ’یہاں بات دو ون ڈی ون کی ہے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا جسٹس یحیی آفریدی کے نوٹ سے تو لگتا ہے اٹارنی جنرل کو سنا ہی نہیں گیا، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے کہا بینچ نے اٹارنی جنرل کو کہا تھا کہ دلائل آرمی ایکٹ کی شقوں کے بجائے نو اور 10 مئی واقعات پر مرکوز رکھیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’یہ تو عجیب بات ہے، پہلے کہا گیا آرمی ایکٹ کی شقوں پر بات نہ کریں، پھر شقوں کو کالعدم بھی قرار دے دیا گیا۔” ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا وکیل فیصل صدیقی نے تو عدالت میں کھڑے ہو کر کہا تھا ہم نے آرمی ایکٹ کی شقوں کو چیلنج ہی نہیں کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے وڈیو لنک پر موجود فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا، ’کیا آپ نے یہ بات سن لی ہے؟‘
وکیل نے کہا ’جی، میں نے کہا تھا کیس کو آرمی ایکٹ کے بجائے آئین کے تحت دیکھا جائے۔‘
بعد ازاں جسٹس امین الدین نے فوجی عدالتوں میں سویلنز ٹرائل کیس کی سماعت 20 جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ اس روز پورا دن کیس سنیں گے۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ’اگر ممکن ہو تو کیس کو منگل تک لے جائیں۔‘
جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ وہ تمام کیسز ڈی لسٹ کر چکے ہیں جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا وہ کیس مکمل کرنے کا ہر روز وعدہ کرتے ہیں پھر توڑ دیتے ہیں۔