نظام شمسی سے باہر ایسی دنیا، ’جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی‘

ماہرینِ فلکیات نے ایک ایسی دنیا دریافت کی ہے، جو ہمارے مشاہدے میں پہلے کبھی نہیں آئی اور وہاں طاقتور ہواؤں سے کیمیائی عناصر پیچیدہ اور منفرد انداز میں فضا میں حرکت پذیر رہتے ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس سیارے کو تھری ڈی انداز میں سمجھنا ہمارے لیے ایک بڑی پیش رفت ہے کیونکہ اس سے بیرونی سیاروں کی فضا اور موسم کو سمجھنے میں مدد ملے گی (پکسا بے)

سائنس دانوں نے پہلی بار ہمارے نظامِ شمسی سے باہر کے ایک سیارے کی فضا کا تھری ڈی نقشہ تیار کیا ہے۔

ماہرینِ فلکیات نے ایک ایسی دنیا دریافت کی ہے، جو ہمارے مشاہدے میں پہلے کبھی نہیں آئی اور وہاں طاقتور ہواؤں سے کیمیائی عناصر پیچیدہ اور منفرد انداز میں فضا میں حرکت پذیر رہتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک وسیع جیٹ سٹریم (ہوائی جھکڑ) اس سیارے کے نصف حصے تک پھیلی ہوئی ہے، جو سورج کی جانب والے حصے سے گزرتے ہوئے ہوا کے بہاؤ کو اتھل پتھل کر دیتی ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس سیارے کو تھری ڈی انداز میں سمجھنا ہمارے لیے ایک بڑی پیش رفت ہے کیونکہ اس سے بیرونی سیاروں (exoplanets) کی فضا اور موسم کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

تاہم یہ دریافت ہمارے موسمیاتی ماڈلز سے مماثلت نہیں رکھتی کیونکہ یہ موسم عام اصولوں سے ہٹ کر کام کر رہا ہے اور ہم نے پہلے کبھی ایسا کوئی نظام نہیں دیکھا۔

یورپین سدرن آبزرویٹری سے وابستہ اور اس تحقیق کی مرکزی مصنفہ جولیا وکٹوریا سائڈل نے کہا: ’اس سیارے کی فضا کا برتاؤ اتنا غیرمعمولی اور منفرد ہے کہ یہ نہ صرف زمین بلکہ دیگر تمام سیاروں کے موسمیاتی اصولوں سے مختلف ہے۔ یہ کسی سائنسی افسانے جیسا محسوس ہوتا ہے۔‘

اس سیارے کو WASP-121b یا Tylos کا نام دیا گیا ہے۔ یہ زمین سے تقریباً 900 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے اور ایک انتہائی گرم مشتری نما سیارہ ہے، جو اپنے سورج کے اتنا قریب ہے کہ اس کا ایک سال ہماری زمین کے صرف 30 گھنٹوں کے برابر ہے۔

ماہرین فلکیات نے یورپین سدرن آبزرویٹری کے ویری لارج ٹیلی سکوپ (وی ایل ٹی) کی مدد سے اس سیارے کی فضا کا مطالعہ کیا اور یہاں سے حاصل ہونے والے انکشافات پر حیران رہ گئے۔

ڈاکٹر جولیا سائڈل نے مزید کہا: ’جو کچھ ہم نے یہاں دیکھا وہ غیرمتوقع تھا یعنی ایک طاقتور ہوائی دھارا سیارے کے خطِ استوا کے گرد کیمیائی عناصر کو حرکت پذیر رکھتا ہے جب کہ یہاں کی فضا کی نچلی سطح پر ایک الگ بہاؤ گرم حصے سے ٹھنڈے حصے کی جانب ہوا کے بہاؤ کو منتقل کرتا ہے۔ ایسا موسمی نظام پہلے کسی سیارے پر نہیں دیکھا گیا۔ ہمارے نظامِ شمسی کے طاقتور ترین سمندری طوفان بھی اس کے مقابلے میں پرسکون لگتے ہیں۔‘

سیارے سے حاصل کردہ ڈیٹا میں مزید چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ سائنس دانوں نے یہاں جیٹ سٹریم میں ٹائٹینیم کی موجودگی دریافت کی حالانکہ پہلے کے مشاہدات میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا تھا۔ ممکنہ طور پر یہ عنصر فضا کی نچلی تہوں میں چھپا ہوا تھا۔

سویڈن کی لُند یونیورسٹی اور یورپی رصدگاہ میں پی ایچ ڈی طالبہ بیبیانا پرینوتھ جنہوں نے اس تحقیق سے جڑی ایک اور تحقیق کی قیادت کی تھی، نے کہا: ’یہ ناقابل یقین ہے کہ ہم اتنی دور موجود کسی سیارے کے کیمیائی اجزا اور موسمیاتی پیٹرن کا اتنی تفصیل سے مطالعہ کر سکتے ہیں۔‘

یہ تحقیق ’ Vertical structure of an exoplanet’s atmospheric jet stream ‘ کے عنوان سے ’نیچر‘ جریدے میں شائع ہوئی ہے جب کہ ’ 'Titanium chemistry of WASP-121b with ESPRESSO in 4-UT mode ‘ نامی تحقیق ’آسٹرونامی اینڈ آسٹروفزکس‘ جریدے میں شائع ہوئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق