میانوالی کے علاقے کالا باغ سے تعلق رکھنے والے غلام جیلانی المعروف ماما ملنگ پیشے کے اعتبار سے ایک حجام ہیں لیکن گذشتہ پانچ دہائیوں کے دوران انہوں نے اپنی دکان میں علاقے کے لوگوں کی تصاویر جمع رکھی ہیں۔
محلہ اتلاپتن کے علاقہ ڈھکی میں پیدا ہونے والے غلام جیلانی کے مطابق انہوں نے 15 سال کی عمر میں حجامت کا کام اپنے بھائیوں سے سیکھا تھا۔
بقول غلام جیلانی: ’جب میں چھوٹا سا تھا اور بھائیوں کے ساتھ دکان پر کام شروع کیا تو اس وقت ہماری دکان پر لوگوں کی چند تصاویر لگی ہوئی تھیں، اس دوران مجھے یہ شوق پیدا ہو گیا کہ علاقے کے لوگوں کی تصاویر دکان پر لگائی جائیں تاکہ دکان بھری بھری سی لگے۔‘
45، 50 سال پہلے انہوں نے اپنے اس شوق کی تکمیل کے لیے علاقے کے لوگوں کی تصاویر اکٹھی کرنا شروع کر دیں اور انہیں فریم کروا کے دکان پر سجانا شروع کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس دوران ان کی دکانیں بھی مختلف جگہوں پر تبدیل ہوتی رہیں، مگر ان کا شوق تبدیل نہ ہوا۔
انہوں نے بتایا: ’مختلف دکانیں تبدیل کرتے کرتے کئی بار بارشیں ہوئیں، سیلاب بھی آئے، بارشوں کے دوران دکان کی چھت گر جانے سے کچھ تصاویر اور فریم ضائع بھی ہوئے مگر میں نے ان پر پیسے خرچ کر کے تصاویر اور فریم دوبارہ بنوا دیے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اب بھی لوگ ذاتی طور پر اپنی تصاویر ان کی دکان پر دے جاتے ہیں کہ یہ اپنی دکان پر لگا لیں، جنہیں یا تو وہ فریم میں لگا لیتے ہیں یا پھر اپنے پاس محفوظ کر لیتے ہیں۔
گذشتہ 50 سال کے دوران کئی لوگ انتقال بھی کر گئے لیکن غلام جیلانی کے پاس ان کی تصاویر محفوظ رہیں۔ اب بھی مقامی لوگ اپنے دادا، پَر دادا اور نانا، پَر نانا کی تصاویر ان سے لے جا کر پرنٹ نکلوا لیتے ہیں یا پھر ان سے سالوں پرانی اپنے پیاروں کی تصویر اپنے گھر لے جاتے ہیں۔
غلام جیلانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میرے پاس مقامی خواتین بھی اپنے پیاروں کی تصاویر دیکھنے آتی ہیں۔ ان تصاویر میں خواتین کے والد، بھائی، بیٹے اور بھتیجے بھی شامل ہیں۔ کئی خواتین اپنے پیاروں کی تصاویر لے بھی جاتی ہیں اور کئی یہیں پر ان تصاویر کو دیکھ کر رو کر اپنا دکھ نکال لیتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’جن کے گھروں میں اپنے پیاروں کی تصاویر نہیں ہوتیں وہ مجھ سے آ کر لے جاتے ہیں۔۔ کئی یہاں سے تصاویر لے جاتے ہیں اور کئی پرنٹ نکلوا کے مجھے واپس دے جاتے ہیں۔‘
غلام جیلانی نے اپنی دکان پر ٹیپ ریکارڈر اور کیسٹ بھی رکھے ہوئے ہیں اور فارغ اوقات میں وہ گانے سنتے ہیں۔
ان کے بقول: ’میرے پاس 50 سال پرانا ٹیپ ریکارڈر بھی موجود ہے اور بے شمار کیسٹ بھی موجود ہیں۔‘
اس کے علاوہ غلام جیلانی کو مرغ رکھنے کا بھی شوق ہے، جو میانوالی کی ثقافت ہے۔ ان کے ہاتھ میں اکثر اوقات بٹیرا بھی نظر آتا ہے جس سے وہ کھیلتے نظر آتے ہیں۔
کالا باغ کے ماما غلام جیلانی ایسے کردار ہیں جو غم میں بھی لوگوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیرتے رہتے ہیں۔
انہوں نے ڈھول بجانے کا کام بھی سیکھا ہے اور اب بھی شادیوں پر ڈھول بجاتے ہیں۔ ساری زندگی کرائے کی دکانوں میں رہے مگر اپنی زندگی سے خوش نظر آتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کے ایک سوال پر انہوں نے کہا: ’اگر حکومت مہربانی کر دے اور مجھے ایک دکان دے دے تو میں حکومت کا شکر گزار رہوں گا اور مجھے کرائے کی دکان سے چھٹکارہ حاصل ہو جائے گا اور مجھے میری ذاتی جگہ بھی مل جائے گی۔‘