ہم حالت انقلاب میں ہیں یا سبز باغ کے پیچھے گرداں؟ انقلاب گویا خود پریشان ہے کہ کس موسم میں آئے۔ ہم مسلسل کشمکش میں ہیں کہ انقلاب کی حد اور احتجاج کی ناک کا کیا کرنا ہے؟ اتنا کچھ ہو چکا مگر انقلاب کا سِرا ہاتھ نہیں لگ رہا اور جدوجہد مفرور ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ سوشل میڈیا پر برپا انقلاب کو پیر کب ملیں گے اور ’شعوری انقلاب‘ کی آخری منزل کیا ہو گی؟
نئی نویلے انقلابی یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ملک مسلسل مارشل لا میں ہے، آمریت پنجے گاڑھ چکی ہے، اظہار رائے پر قدغنیں اور تحریر و تقریر پر پابندی ہے مگر سوال یہ کہ کیا اب سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا؟ یا یہ ہر دور کی ’کنٹرولڈ‘ جمہوریت اور آزادیوں پر پابندیوں کا ایک تسلسل ہے جو کسی کو اب نظر آیا اور کسی کو تب۔
جمہوریت، نظریے اور آزادی رائے سے وابستگی حالات اور موسم کے مطابق نہیں ہوتی بلکہ اسے ایک تسلسل کے ساتھ جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم آئین کے رستے سے ہٹتے چلے گئے اور اب سرزمینِ بے آئین میں آزادیاں ڈھونڈتے ہوئے ماضی کو فراموش کر دینا چاہتے ہیں۔ پہلے جو کل غلط تھا اسے تسلیم کریں اور پھر آگے بڑھیں تب ہی درست سمت کا تعین ممکن ہو گا۔
تحریکیں نظریے سے چلتی ہیں شخصیت پرستی سے نہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں 2002 کے انتخابات کے بعد ملک میں سیاسی جماعتیں پَر نہیں مار سکتی تھیں، نواز شریف، بے نظیر بھٹو ملک سے باہر تھے۔ اے آر ڈی وجود میں آئی اور نوابزادہ نصراللہ خان کی سربراہی میں سیاسی جماعتیں متحرک ہوئیں، نوابزادہ صاحب کی پریس کانفرنسیں اور سیاسی سرگرمیاں بطور رپورٹر کور کرنے کا موقع ملا۔
نوابزادہ صاحب ایف سیون ٹو سیکٹر کے ایک بوسیدہ سے مکان میں رہائش پذیر تھے جبکہ تحریک کے پاس چلنے کے معاشی ذرائع نہ ہونے کے برابر۔۔ اے آر ڈی کو صرف اللہ کا ہی آسرا تھا مگر نوابزادہ صاحب اپنے افکار اور اشعار سے جذبہ جگاتے رہتے تھے۔ باہر بیٹھی قیادت اور اندر بیٹھے کارکنوں کو یہ احساس البتہ تھا کہ قیادت محفوظ ہاتھوں میں ہے جو کسی سے خفیہ مذاکرات کرے گی نہ ملاقات۔
2002 سے 2004 تک آمریت کی سختیاں زیادہ تھیں اس کے باوجود چند سر پھرے تحریک چلاتے نظر آتے تھے۔
اکا دُکا واقعات جیسے نواز لیگ کے سابق اور برے وقتوں کے سیکرٹری اطلاعات مرحوم صدیق الفاروق کے اُٹھائے جانے، مخدوم جاوید ہاشمی کے خلاف آئے دن کاروائیاں اور بلآخر گرفتاری، سینٹر مشاہد اللہ خان کے شاہراہ دستور تک پہنچنے کی کوششیں، اقبال ظفر جھگڑا کی صحافیوں تک خبر پہنچانے کی تگ و دو جبکہ پیپلز پارٹی کے نیر بخاری اور سلطان محمود مرحوم، کیپٹن واصف، نذیر ڈھوکی مرحوم سمیت کئی کارکن سڑکوں پر نکل آتے اور اپنی جدوجہد کا اظہار کرتے رہتے۔
اخبارات میں دو کالمی خبر کو جگہ مل جاتی اور نئے نئے ’آزاد‘ چینلوں پر چند سیکنڈوں کی کوئی فوٹیج چل جاتی اور یہی کارکنوں کی کامیابی ہوتی۔ نہ کوئی کفن باندھتا، نہ قبر کھودتا اور نہ سوشل میڈیا تھا کہ کوئی مہم چلتی مگر سیاست اپنی زندگی اور صحافت اپنی آزادی کا اظہار چھینتی دکھائی دیتی، کوئی انقلاب لانے کے دعوے نہ کرتا مگر اپنی ذات کے اندر انقلاب کی کوششیں ضرور دکھائی دیتیں۔
ایک مرتبہ پھر اسلام آباد میں اپوزیشن اتحاد کی کوششیں ہیں۔ عدالتیں آزادی کی جنگ لڑتے لڑتے آئین کی بجائے مختلف سیاسی گروہوں کے سامنے سرنڈر کر چکی ہیں جبکہ مقننہ سیاسی جگہ کھو بیٹھی ہے اور صحافت نئے قانون کے تحت پابندیوں اور اندیشوں کی نذر ہو چکی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صحافتی تنظیمیں جو تحریکوں کی بنیاد بنتی ہیں اب تک الگ الگ صفحوں پر ہیں۔ پیکا قانون پر کئی ایک تنظیمیں الگ الگ اجلاس بلا رہی ہیں مگر اب تک نہ تو کوئی متفقہ لائحہ عمل بن سکا اور نہ ہی مجوزہ مسودہ۔۔ صحافتی برادری تحریک کے لیے ایک جگہ اکٹھی نہیں ہو سکی۔
یہی حال سیاسی جماعتوں کا ہے۔ چھوٹی بڑی درجن بھر سیاسی جماعتیں ایک جگہ کھڑی ہیں مگر اب تک جمہوریت، آئین کی سربلندی کا ’مشترکہ ایجنڈا‘ طے نہیں پا سکا۔ ہو سکتا ہے کہ جلد کوئی پیش رفت سامنے آ جائے مگر تحریک انصاف کا موقف اس پر کیا ہو گا اور عمران خان صاحب کس کو ساتھ لے کر چلیں گے؟ یہ سوال تاحال جواب طلب ہے۔
اپوزیشن جماعتوں میں تحریک انصاف سب سے بڑی اور مقبول جماعت ہے مگر کون سا دھڑا زیادہ مضبوط ہے اس کا فیصلہ بھی نہیں ہو پایا۔ اتنی بڑی جماعت کو نہ تو اپنا لائحہ عمل پتہ ہے اور نہ ہی طریقہ۔۔ اب تک احتجاج سے لے کر سول نافرمانی، خطوط سے لے کر امریکی لابنگ تک کے حربے ناکام ہوئے ہیں، تنظیم کمزور اور دھڑے مضبوط ہو رہے ہیں۔
لگتا ہے کہ تحریک انصاف بطور جماعت سوشل میڈیا کے بیرونی گروہ کے ہاتھوں ہائی جیک ہو چکی ہے جبکہ اندرونی قیادت ’بیرونی سوشل میڈیا‘ کے دباؤ کا شکار ہے، ایسے میں تحریک کیسے جنم لے گی؟ ایجنڈا وسیع ہو گا یا فقط عمران خان کی رہائی تک محدود؟ ان معاملات پر سنجیدہ بحث تاحال جگہ نہیں لے سکی۔
حال ہی میں ایک اجلاس میں مولانا فضل الرحمن نے یہ سوال اُٹھایا کہ اتحاد میں کوئی اختلاف نہیں تاہم اُن کے ’تحفظات‘ کون دور کرے گا اور ضمانت کیا ہو گی؟ مولانا فضل الرحمن قائد ہوں گے یا خان صاحب اُن پر بھروسہ نہیں کریں گے؟
پی ڈی ایم نے مولانا کو تحریک کا سربراہ بنایا تھا کیا اب بھی ایسا ہو گا یا فقط انہیں ’رینٹ آ کراؤڈ‘ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ خیبر پختونخوا میں اُن کے ساتھ انتخابی اتحاد ہو گا یا نہیں؟ اور پھر خیبر پختونخوا میں علی امین گنڈا پور کی موجودگی میں علاقائی اور نظریاتی اختلاف پسِ پُشت ڈال کر آگے کیسے بڑھا جائے گا۔
اپوزیشن جماعتیں اتحاد بننے سے قبل اب تک طے نہیں کر پائیں کہ ممکنہ تحریک کی صورت بات کس سے ہو گی، فوجی قیادت سے یا سیاسی رہنماؤں سے؟
یہاں عدالت، صحافت، سیاسی جماعتیں منقسم ہیں گویا معاشرے کی نظریاتی تقسیم کا اہتمام ہو چکا ہے ایسے میں کون ہو گا جو آئین اور جمہوریت کے لیے سب کو ایک جگہ متحد کرے ورنہ یہ سمجھ لیا جائے گا کہ اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔