علیحدگی پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے بلوچستان کے ضلع قلات میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کے قافلے پر حملے کی ذمہ داری منگل کو قبول کر لی، جس میں ایک فوجی جان سے چلا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ اس نے ضلع قلات میں ’ایک خصوصی مشن کامیابی سے مکمل کرتے ہوئے گاڑی کو نشانہ بنایا۔‘
اگرچہ بی ایل اے کے بیان میں بمبار کی جنس کا ذکر نہیں کیا گیا، تاہم حکام کے مطابق یہ حملہ ایک خاتون خودکش بمبار نے کیا تھا۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے بتایا تھا کہ ایک خاتون خودکش حملہ آور نے پیر کو قلات میں ایک ونگ کمانڈر کی گاڑی کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں کم از کم ایک فوجی جان سے گیا اور چار زخمی ہوئے۔
آئی ایس پی آر نے مزید کہا تھا کہ خاتون خودکش بمبار نے دوپہر دو بجکر 55 منٹ پر قلات کے قریب مڈ وے آر سی ڈی روڈ (این 25) پر نیم فوجی دستوں کے قافلے کو نشانہ بنایا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق خودکش حملے کا نشانہ ونگ کمانڈر، قلات تھے، جن کی گاڑی قافلے میں شامل تھی، تاہم ونگ کمانڈر اس حملے میں محفوظ رہے۔
بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اس خطے میں سب سے زیادہ متحرک گروہ ہے اور اکثر سکیورٹی فورسز یا دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں پر مہلک حملے کرتی ہے۔
یہ تنظیم غیر ملکی سرمایہ کاری سے چلنے والے توانائی منصوبوں، خاص طور پر پاکستان چین اقتصاری راہداری (سی پیک) منصوبوں کو نشانہ بناتی رہی ہے۔
بلوچ لبریشن آرمی نے منگل کو اپنے بیان میں کہا کہ ’بلوچستان کے قیمتی قدرتی وسائل بلوچ قوم کی ملکیت ہیں۔‘
ساتھ ہی اس نے تمام غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ’سخت تنبیہ‘ کی کہ وہ ’مقبوضہ بلوچستان کے وسائل کے استحصال‘ میں حصہ نہ لیں۔
پاکستان میں خواتین خودکش حملہ آور کم دیکھنے میں آتی ہیں، تاہم بی ایل اے اس سے قبل خواتین جنگجوؤں کے ذریعے حملے کر چکی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپریل 2022 میں کراچی میں ایک خاتون خودکش حملہ آور نے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کی یونیورسٹی میں داخل ہوتے وقت اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا تھا، جس میں تین چینی ماہرین تعلیم اور ان کا پاکستانی ڈرائیور مارے گئے تھے۔
کالعدم علیحدگی پسند تنظیم بی ایل اے کے مجید بریگیڈ نے ایکس پر کراچی یونیورسٹی میں چینی باشندوں پر خاتون کے ذریعے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ ان خاتون کی شناخت شاری بلوچ عرف برمش کے طور پر کی گئی تھی۔
گذشتہ برس ستمبر میں بلوچستان حکومت کے زیر انتظام ایک پریس کانفرنس میں تربت سے گرفتار ہونے والی ممکنہ خودکش حملہ آور خاتون عدیلہ بلوچ نے انکشاف کیا تھا کہ انہیں ایک علیحدگی پسند بلوچ تنظیم نے ’ورغلا‘ کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی، تاہم سکیورٹی اداروں نے انہیں بازیاب کروا کر بچا لیا۔
خواتین کا بلوچ عسکریت پسند تحریک میں شامل ہونا کس نوعیت کے خطرے کی نشاندہی کرتا ہے، اس سلسلے میں معروف تجزیہ کار اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیزکے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے جولائی 2023 میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’چونکہ بلوچستان میں ریاست مخالف جذبات بظاہر زیادہ ہیں اس وجہ سے خواتین بھی مسلح جدوجہد کا حصہ بن رہی ہیں۔‘
محمدعامر رانا کے مطابق: ’خواتین کی طرف سے خود کش حملے نئی بات نہیں کیوں کہ دنیا میں قوم پرست تحریکوں کا زیادہ رجحان بائیں بازو کی طرف رہا ہے، یہی صورت حال بلوچستان کی ہے، یہاں پر بھی لڑنے والوں کا رجحان اسی طرف ہے۔‘
ان کہنا تھا کہ ’بائیں بازو کی تحریکوں میں یہ رجحان رہا ہے، جیسے کچھ عرصہ قبل سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کی تحریک رہی، جس میں خودکش حملے کرنے کا رجحان تھا، جن میں خواتین بھی شامل تھیں اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔‘
اسلام آباد میں قائم سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے مطابق گذشتہ سال پاکستان کے لیے ایک دہائی میں سب سے زیادہ خونی ثابت ہوا، جب مختلف حملوں میں 1600 سے زائد افراد مارے گئے، جن میں 685 پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار شامل تھے۔
تشدد زیادہ تر افغانستان کی سرحد سے ملحقہ علاقوں تک محدود رہا ہے جب کہ بڑے شہروں میں حملے نسبتاً کم ہو گئے ہیں۔
گذشتہ سال نومبر میں بی ایل اے نے کوئٹہ کے مرکزی ریلوے سٹیشن پر ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس میں کم از کم 26 افراد جان سے گئے، جن میں 14 فوجی بھی شامل تھے۔
اسی طرح اگست 2024 میں بی ایل اے نے درجنوں حملہ آوروں کی جانب سے کیے گئے منظم حملوں کی ذمہ داری قبول کی، جن میں کم از کم 39 افراد مارے گئے۔ یہ خطے میں ہونے والے سب سے زیادہ جان لیوا حملوں میں سے ایک تھا۔