موجودہ حکومت کی اپوزیشن کرنا ہی باعث شرمندگی ہے: شاہد خاقان عباسی

شاہد خاقان عباسی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ عمران خان نے آئین کی بالادستی کو نقصان پہنچایا اور اگر انہوں نے واپس آ کر یہی کرنا ہے تو موجودہ حکومت یہی کام عمران خان سے بہتر کر رہی ہے۔

عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کرنا ہی باعث شرمندگی ہے۔ یہ اپنی خود اپوزیشن ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے موجودہ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے حوالے سے کہا ’کیا پاکستان کے حالات بہتر ہو گئے ہیں؟ پاکستان کا ہر آدمی گذشتہ برس کی نسبت اب بھی غریب ہے۔

’یہ اس ملک کی حقیقت ہے۔ جو لوگ اقتدار میں ہیں ان کے پاس مینڈیٹ نہیں اس لیے حالات بہتر ہونا ممکن نہیں۔‘

وفاقی حکومت کے مختلف وزرا کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کا ایک سال استحکام اور ترقی کا سفر ہے۔

وزیر مملکت بیرسٹر عقیل ملک کے مطابق مخالفین بھی ماننے پر مجبور ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کی معیشت کو ایک مشکل دور سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا۔

تاہم شاہد خاقان ان بیانات سے متفق نظر نہیں آتے کیونکہ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا معیشت میں بہتری کی ذمہ دار حکومت ہے یا حالات و واقعات؟ تو انہوں نے کہا کہ ’اسی حکومت کی ناکامیاں پاکستان کو دیوالیہ کر رہی تھیں اور پاکستان دیوالیہ کبھی بھی نہیں ہو سکتا، چاہے یہ حکومت گھر بھی چلی جائے پاکستان دیوالیہ نہیں گا۔‘

اس کی وجوہات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’دنیا کے لیے پاکستان کا دیوالیہ ہونا زیادہ مشکل صورتحال ہے اس سے بہتر دو، چار ارب ڈالرز دے کر پاکستان کو زندہ رکھا جائے۔‘

وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں وفاقی کابینہ کے ارکان کی تعداد بڑھائی ہے اور پی ٹی آئی کے سابق رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک بھی اس کابینہ کا حصہ بنے ہیں۔

اس حوالے سے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ’پرویز خٹک 2014 میں ڈانس کرتے ہوئے آئے تھے اور جن کے خلاف آئے تھے ان کے ساتھ ہی اب ڈانس کر رہے ہیں۔

’یہی ہماری سیاست ہے۔ پرویز خٹک کی پرفارمنس اس حکومت سے بہتر ہی تھی تو اب کابینہ میں شامل ہو کر کچھ بہتر ہی کریں گے۔‘

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے متعلق انہوں نے کہا کہ ’عمران خان بھی اسی راستے سے حکومت میں آئے تھے جس راستے سے یہ حکومت آئی۔ عمران خان نے جمہوری قدروں کو تباہ کیا اور پارلیمانی قدروں کو ختم کیا۔‘

انہوں نے کہا عمران خان آج کے پاپولر لیڈر ہیں جو چار سال حکومت میں بھی رہے لیکن انہوں نے آئین کی بالادستی کو نقصان پہنچایا۔

’قانون نامی کوئی چیز نہیں تھی۔ اگر عمران خان نے یہی کام دوبارہ آ کر کرنے ہیں تو یہ حکومت یہی کام عمران خان سے بہتر  کر رہی ہے۔

’اسی وجہ سے اب لوگ عمران خان کو بھول چکے ہیں۔ عمران خان کو اپنی ان غلطیوں سے سیکھنا ہو گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملک کی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پر غور اور اس حوالے سے ملاقاتوں پر شاہد خاقان عباسی نے کہا اپوزیشن مل کر بھی حکومت وقت کو مشکل وقت نہیں دے سکتی کیونکہ حکومت کے پاس اکثریت ہوتی ہے۔

’جب اپوزیشن ملک میں آئین اور قانون کی عمل داری کی بات کرے، متبادل منصوبے دیے جائیں تب حکومت پر دباؤ پڑتا ہے۔ اس وقت جو حکومت ہے اس کے خلاف اپوزیشن کرنا ہی باعث شرمندگی ہے۔ یہ اپنی خود اپوزیشن ہیں۔‘

سابق وزیر اعظم سے جب پوچھا گیا کہ ہائبرڈ حکومت سے آپ کیا مطلب لیتے ہیں اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حکومت کہیں اور سے چل رہی ہے یا کوئی مداخلت ہے؟ تو انہوں نے کہا ’پہلے عمران خان ہائبرڈ حکومت کہتے تھے اب ہائبرڈ پلس کہتے ہیں، لیکن حکومتیں اس طرح نہیں چلتیں۔‘

شاہد خاقان عباسی عوام پاکستان پارٹی کی قیادت سے قبل کئی دہائیوں سے ن لیگ کے رکن رہے اور اسی پارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے آئے ہیں۔

تاہم کچھ عرصہ قبل انہوں نے پہلے پارٹی امور سے دوری اختیار کی اور بعد ازاں پارٹی کو الوداع کہہ دیا۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا مستقبل قریب میں ن لیگ سے تعلق بحال ہونے کی کوئی امید ہے؟ تو ان کا ردعمل تھا کہ ’آج حکومت چھوڑ دیں ہماری جماعت ن لیگ کے ساتھ چلے گی۔ آئین اور قانون کی بالادستی کی بات کریں تو ہم ساتھ چلیں گے۔

’جب وہ عوام کے مینڈیٹ کے بغیر اقتدار میں آئیں گے تو میں تو اس کا حصہ نہیں بن سکتا۔ ہم نے تو ووٹ کو عزت دو کی بات کی تھی۔‘

غزہ کی صورتحال پر حکومتی ردعمل سے غیر مطمئن نظر آنے والے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ فلسطین کے معاملے پر حکومت ہتھیار کیا آواز بھی بلند نہیں کر سکی۔

’دو ارب مسلمان خاموش بیٹھے رہے اور ہر روز ڈیڑھ سو فلسطینی بچے شہید کیے گئے یہ ہم سب کے لیے باعث شرم ہے۔ ‘

انہوں نے مزید کہا کہ افواج بھیجنا ہر جگہ ممکن نہیں ہوتا اور نہ ضروری ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے ردعمل ہوتے ہیں۔

’انڈیا نے جب اپنا آئین بدلا اور کشمیر کو اپنا حصہ بنایا ہم تب بھی خاموش بیٹھے رہے۔ جب گھر کمزور ہو گا تو خارجہ پالیسی بھی کمزور ہوتی ہے، آپ بات کرنے کے قابل نہیں رہتے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست