چترال: قصاب کی دکانوں کے تنازعے نے بازار کو مسلکی بنیاد پر کیسے تقسیم کیا؟

خیبر پختونخوا کے دور افتادہ ضلع لوئر چترال کے علاقے گرم چشمہ بازار میں اہل سنت اور اسماعیلی کمیونٹی کے مابین قصاب کی دکانوں کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے بازار کو مسلکی بنیاد پر تقسیم کا معاہدہ طے پایا ہے۔

لوئر چترال کے علاقے گرم چشمہ بازار کا ایک منظر، جہاں اہل سنت اور اسماعیلی کمیونٹی کے مابین قصاب کی دکانوں کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے معاہدہ کیا گیا ہے (انڈپینڈنٹ اردو)

خیبر پختونخوا کے دور افتادہ ضلع لوئر چترال کے علاقے گرم چشمہ بازار میں اہل سنت اور اسماعیلی کمیونٹی کے مابین قصاب کی دکانوں کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے بازار کو مسلکی بنیاد پر تقسیم کا معاہدہ طے پایا گیا ہے۔

یہ معاہدہ مقامی تھانے میں اسسٹنٹ کمشنر، دونوں فریقین کے مشران اور بلدیاتی نمائندوں کی موجودگی میں کیا گیا، جس میں گرم چشمہ کے لٹکوہ بازار کے بالائی حصے میں اسماعیلی قصائیوں کو کام کرنے جبکہ زیریں حصے میں سنی قصابوں کو دکان کو کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔

معاہدے کے مطابق گرم چشمہ کے لٹکوہ بازار کا درمیان کا حصہ بفر زون قرار دیا گیا ہے، جس میں کسی کو بھی قصاب کی دکان کھولنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

یہ تنازع کیا ہے؟

بنیادی طور پر یہ تنازع مذہبی بنیادوں پر سامنے آیا تھا، جس میں علاقے کے اہل سنت افراد اسماعیلی قصاب کی دکان پر معترض تھے جبکہ اسماعیلی کمیونٹی کے افراد علاقے میں سنی قصاب کی دکان پر معترض تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لٹکوہ بازار سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی محمد یونس کے مطابق بنیادی مسئلہ قصاب کی دکانوں کا تھا، جو گھمبیر ہو رہا تھا کیونکہ دونوں فریقین مخالف فریق کی دکان میں ملنے والے گوشت کو حلال نہیں سمجھتے تھے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ بازار تین حصوں پر مشتمل ہے، جس کے بالائی حصے میں اسماعیلی دکاندار زیادہ ہیں کیونکہ وہاں اسماعیلی آبادی زیادہ ہے۔

اسی طرح یونس کے مطابق بازار کے زیریں حصے میں اہل سنت کی آبادی زیادہ ہے اور تنازع اسی پر تھا کہ دونوں فریقین ایک دوسرے کے علاقوں میں مخالف فریق کی قصاب کی دکان کے خلاف تھے۔

انہوں نے بتایا: ’یہ تنازع نیا نہیں ہے بلکہ 2002 میں بھی ایسا ہی ایک تنازع کھڑا ہوا تھا اور اس وقت بھی ایک معاہدہ کیا گیا تھا اور اب دوبارہ معاہدہ طے پایا گیا ہے۔‘

یونس کے مطابق معاہدے کے تحت ایک فریق کی اگر دوسرے فریق کے علاقے میں قصاب کی دکان ہے، تو وہ اسے اپنے علاقے میں منتقل کرے گا جبکہ بازار کے بفرزون میں قصاب کی کوئی دکان نہیں کھولی جائے گی۔

بقول یونس: ’یہ اس علاقے کا مرکزی بازار ہے جہاں 300 کے قریب دکانیں ہیں اور یہ بازار گرم چشمہ سیاحتی مقام کے بالکل قریب ہے۔‘

گرم چشمہ کے منتخب بلدیاتی ناظم سجاد احمد پرتوی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قصاب کی دکانوں کا مسئلہ پیچیدہ ہو رہا تھا اور اسی وجہ سے ضلعی انتظامیہ کو سامنے آنا پڑا اور معاہدہ کیا گیا۔

سجاد احمد نے بتایا کہ اس علاقے میں قصائیوں کا کام زیادہ تر اہل سنت کر رہے ہیں لیکن بعض جگہوں پر اسماعیلی برادری کے قصائی بھی ہیں اور اسی پر مسئلہ کھڑا ہوا تھا۔

انہوں نے بتایا: ’ایک فریق کی جانب سے قصائی کے کام پر اعتراض ہو رہا تھا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور یہ گوشت ہوٹلوں کو جائے گا تو وہاں گاہک کم ہوتے جائیں گے کیونکہ ان کے ہاتھ سے ذبح کیے گئے جانور کا گوشت وہ نہیں کھائیں گے۔‘

سجاد احمد کے مطابق اب یہی معاہدہ ہوا ہے کہ اسماعیلی قصائی اوپر والے حصے اور اہل سنت زیریں حصے میں دکان چلائیں گے اور بازار کے جس حصے پر تنازع تھا، اسے بفرزون قرار دیا گیا، یعنی وہاں قصائی کی دکان نہیں ہوگی۔

گرم چشمہ لوئر چترال کی تحصیل ہے، جسے لٹکوہ تحصیل بھی کہا جاتا ہے۔ اس علاقے میں گرم پانی کے ایک چشمے کی وجہ سے اس کا نام گرم چشمہ مشہور ہوا۔

یہ علاقہ سطح سمندر سے تقریباً آٹھ ہزار 300 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور چترال کے مشہور سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ اس علاقے کی سرحد دوراہ پاس کے ذریعے افغانستان کے صوبہ بدخشاں سے ملتی ہے۔ 

آغا خان یونیورسٹی کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق چترال میں 65 فیصد آبادی اہل سنت اور 32 فیصد آبادی اسماعیلیوں کی ہے، جو زیادہ تر اپر چترال کے علاقوں مستوج، تورکھو اور موڑکھو کے علاقوں میں آباد ہیں۔

اس مقالے کے مطابق لوئر چترال کی وادی لٹکوہ (گرم چشمہ) میں کثیر تعداد میں اسماعیلی آبادی موجود ہے۔

سوشل میڈیا صارفین کیا کہتے ہیں؟

سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے اس معاہدے کے حوالے سے مختلف آرا سامنے آئی ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ چترال عمومی طور پر مذہبی ہم آہنگی کے لیے مشہور ہے اور اس قسم کی تقسیم نہیں ہونی چاہیے تھی۔

شفیق احمد نامی صارف نے فیس بک پر لکھا کہ ’کیا ہم اپنے اختلافات کو باہمی احترام میں بدل سکتے ہیں؟‘ ساتھ ہی انہوں نے لکھا: ’ہمیں اپنے بیانیوں میں لچک اور وسعت پیدا کرنی ہوگی۔‘

 

اسی طرح فیس بک پر عمران علی خان نامی صارف نے لکھا کہ ’بازار کی تقسیم اور بفر زون کا قیام ایک مضحکہ خیز فعل اور اس کمزور ذہنی سوچ کو ضلعی انتظامیہ کی جانب سے قانونی شکل دینا بہت بڑی غلطی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان