پاکستان کسان اتحاد (پی کے آئی) کے چیئرمین نے جمعرات کو حکومت کو تقریبا ایک ماہ کا وقت دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے گندم نہ خریدی اور گندم سستی کی تو ملک بھر سے کسان اسلام آباد کی جانب مارچ کریں گے۔
اسلام آباد میں منعقدہ نیوز کانفرنس میں چیئرمین پی کے آئی خالد حسین باٹھ نے کہا ہے کہ صوبہ پنجاب کی حکومت کا کسانوں سے گندم نہ خریدنا بدقسمتی ہے۔
پی کے آئی کے سربراہ نے کہا اس وقت گندم کی فصل تیار ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اس کی پیداوار 25 سے 30 فیصد کم ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ کسان متاثر ہوا ہے۔ لہذا اس سال 10 سے 15 ارب روپے کی گندم درآمد کرنی پڑے گی۔
انہوں نے کہا حکومت نے کاشت کے اہداف پورے کرنے کے دعوے کیے تاہم گذشتہ برس گندم کی درآمد میں خصوصی طور پر مڈل مین نے اربوں روپے کی کرپشن کی ہے۔
اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان کے زرعی شعبے کا پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں حصہ 22.9 فیصد ہے جبکہ 37.4 فیصد ملازمتیں اس شعبے سے منسلک ہیں۔
پاکستان میں گندم کی مجموعی پیداوار میں صوبہ پنجاب اور سندھ کل حصہ 90 فیصد ہے جبکہ کل کھپت 3.2 کروڑ ٹن ہے۔
اس سال بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں گندم کا درآمدی بل بڑھ جائے گا۔
خالد حسین باٹھ نے کہا گندم کا ریٹ خود کسان خود طے کریں گے جو 4200 روپے فی من ہوگا۔
چیئرمین پاکستان کسان اتحاد نے حکومت کی جانب سے سبسڈی دیے جانے کے اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا اگر حکومت نے غریبوں کو سستا آٹا دینا ہے تو کسانوں کو سبسڈی دے۔
’اگر حکومت نے گندم سستی کرنے کی کوشش کی تو ملک بھر سے اسلام آباد کی طرف نکلیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے گندم نہ خریدی تو عید کے بعد احتجاج کے لیے نکلیں گے۔
ملک میں مہنگی چینی پر بات کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان کسان اتحاد نے کہا کہ گنا سستا خریدا گیا جس کی قیمت 350 روپے فی من تھی لیکن اب چینی مہنگی ہو گئی ہے۔ شوگر ملوں نے ابھی تک کسانوں کے پیسے نہیں دیے، شوگر ملز والے ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں۔
خالد حسین باٹھ نے کہا ساہیوال ڈویژن میں کسانوں کو چاول کاشت کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا کہ کسان کپاس کاشت کریں، اگر کپاس کاشت کرنی تھی تو کسانوں کو پہلے آگاہ کیا جاتا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر چاول کاشت نہیں کریں گے تو زمینوں کا ٹھیکہ کہاں سے پورا کریں گے؟
’ٹیوب ویل کے بلوں پر اوربلنگ کی گئی اب اس پر سود لگا کر لاکھوں روپے کر دیا ہے۔‘
خالد حسین باٹھ نے کہا ہمارا مطالبہ ہے کہ کسانوں کے بجلی کے بقایاجات کا آڈٹ کیا جائے۔
’پنجاب حکومت نے کسانوں کو سولر دینے کا اعلان کیا اور حاجی سنز کے نام سے ایک کمپنی کو سولر کا ٹھیکہ دیا گیا۔ 10 لاکھ والا سولر مہنگے داموں دو گنا قیمت پر 20 لاکھ میں لگا کر دے رہے ہیں۔‘
انہوں نے تنبیہ کی کہ حکومت نے منصوبہ بندی نہ کی تو فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ درپیش ہوگا۔
گندم کی پیداوار میں آٹھواں بڑا ملک، مگر فی ہیکٹر پیداوار میں 56 ویں نمبر پر
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان دنیا میں گندم کی پیداوار کے حوالے سے دنیا میں آٹھواں بڑا ملک ہے لیکن اگر بات کی جائے فی ہیکٹر پیداوار کی تو اس حوالے سے پاکستان کا دنیا میں 56 واں نمبر ہے۔ پاکستان نے پچھلے 30 سالوں میں گندم کی پیداوار میں نمایاں بہتری حاصل کی ہے۔ 1990 میں پاکستان میں گندم کی پیداوار 1.44کروڑ ٹن تھی، جو 2011 میں ڈھائی کروڑ ٹن ہو گئی۔
اس طرح صرف 20 سالوں میں پاکستان میں گندم کی پیداوار میں 75 فیصد اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کے بعد کے سالوں میں پیداوار میں اضافے کا یہ تناسب برقرار نہیں رہ سکا اور 2021 تک گندم کی پیداوار 10 فیصد اضافے کے ساتھ پونے تین کروڑ ٹن رہی، جس کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں بھی ہیں۔
اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان کے زرعی شعبے کا پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں حصہ 22.9 فیصد ہے جبکہ 37.4 فیصد ملازمتیں اس شعبے کی مرہون منت ہیں۔ پاکستان میں گندم کی مجموعی پیداوار میں پنجاب اور سندھ کا حصہ 90 فیصد ہے۔ پاکستان میں گندم کی کل کھپت 3.2 کروڑ ٹن ہے جبکہ پیداوار ڈھائی کروڑ سے 2.8 کروڑ ٹن کے درمیان رہتی ہے۔ باقی کمی گندم کی درآمد سے پوری کی جاتی ہے۔ اس سال بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں گندم کا درآمدی بل بڑھ جائے گا۔
اس سال گندم کیوں کم کاشت کی گئی؟
میاں عمیر مسعود مرکزی کسان اتحاد کے صدر ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کے کالم نویس سجد اظہر کو بتایا تھا کہ ’گندم کے کاشت کاروں کو پچھلے سال ایک ہزار ارب روپے کا نقصان ہوا تھا کیونکہ ان کی گندم خریدنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس سال بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے بارانی ایریا کی گندم کی فصل تباہ ہو چکی ہے اور میدانی علاقوں کی بھی شدید متاثر ہے۔‘
بقول عمیر مسعود: ’پہلے ہی گندم کی کاشت 30 فیصد کم ہوئی ہے اور بارشیں نہ ہونے کا عنصر بھی اگر اس میں شامل کر لیا جائے تو اس سال گندم کی پیداوار پچھلے سال کی نسبت 50 فیصد کم ہو گی۔ یہ عملی صورت حال ہے، جو کسان اتحاد پیش کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب سرکاری بابو اپنی نوکریاں بچانے کے لیے حکومت کو گمراہ کن اعدادوشمار پیش کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے گندم کی کاشت کا 98 فیصد حاصل کر لیا ہے، جس کے ثبوت کے طور پر وہ کہہ رہے ہیں کہ اس سال 50 فیصد کھاد زیادہ فروخت ہوئی ہے، حالانکہ ہماری اطلاعات کے مطابق فیکٹریوں میں کھاد سرپلس پڑی ہوئی ہے اور خریدار نہیں مل رہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کسان اتحاد موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے محسوس کر رہا ہے کہ پاکستان میں گندم کا شدید بحران آنے والا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے کہنے پر پہلے ہی پاسکو کو غیر مؤثر کر دیا ہے، اس سال وہ بھی گندم نہیں خرید رہا جبکہ حکومت کے پاس 11 لاکھ ٹن کے ذخائر موجود ہیں، جو مارکیٹ کی ضرورت کے لیے بہت ہی کم ہیں۔‘
اس صورت حال پر صوبائی اور وفاقی حکومت کا موقف معلوم کرنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ، وزیر دفاع و ہوا بازی خواجہ محمد آصف، خصوصی وزیر پنجاب مریم اورنگزیب، پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری، وزیر مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی رانا احسان افضل سے موقف لینے کے لیے رابطہ کیا لیکن ان میں سے کسی سے جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
اس سے قبل حکومت گندم کی خریداری سے متعلق بیان دیتی رہی ہے کہ اس عمل میں تمام فریقوں کے مفادات کا خیال رکھا جائے گا۔