’ہم جانوروں کی طرح قید ہیں، خدارا حکومت روڈ کھولنے میں مدد کرے۔‘
یہ کہنا تھا خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر چترال کی پارسان وادی کے ناظم حاجی نوروز خان کا، جو دیگر لوگوں کی طرح روڈ بندش کی وجہ سے اپنے علاقے تک محدود ہو گئے ہیں۔
یہ روڈ پرسان وادی کو باقی ملک کے ساتھ ملانے والا واحد راستہ جس کو مختلف سیاحوں نے پاکستان کا سب سے خطرناک روڈ قرار دیا ہے۔
پہاڑوں کے دامن میں نکالا گیا یہ روڈ چھوٹی بڑی گاڑیاں آمدورفت کے لیے استعمال کرتی ہیں جبکہ اسی علاقے سے مٹر سمیت دیگر سبزیاں بھی چترال اور خیبر پختونخوا کی مارکیٹ کو سپلائی کی جاتی ہیں۔
تاہم گذشتہ ہفتے بارشوں کی وجہ سے پہلے روڈ کا زیادہ تر حصہ بہہ گیا تھا اور بعد میں اسی روڈ میں واقع خطرناک ٹنل، جس کو مقامی لوگ ‘ڈیتھ ٹنل‘ بھی کہتے ہیں، لینڈ سالینڈنگ کی وجہ سے بند ہوگیا ہے۔
یہ روایتی ٹنل کی طرح پہاڑ میں راستہ بنا کر نہیں بنایا گیا بلکہ پہاڑ کا ایک کونا اسی روڈ کے اوپر موجود ہے اور گاڑیاں اسی کے ذریعے نیچے جاتی ہیں اور پہاڑ کا یہی حصہ گر گیا ہے جس کی وجہ سے روڈ بند ہے۔
حاجی نوروز نے بتایا کہ پہلے بارشوں اور اب لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے دو ہفتوں سے زائد سے روڈ بند ہے اور لوگوں کو اشیا خوردونوش بھی میسر نہیں ہیں۔
انہوں نے بتایا، ’لوگ یہاں بھوک سے مر جائیں گے۔ ہم بھی انسان ہیں اور پاکستانی ہیں، تو حکومت جلد از جلد روڈ کھولنے میں مدد کریں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حاجی نوروز نے بتایا کہ اس وادی کی آبادی 350 سے زائد گھرانوں پر مشتمل ہے اور مجموعی آبادی تقریباً 30 ہزار ہے لیکن اب بیمار کو ہسپتال بھی نہیں لے جا سکتے۔
انہوں نے بتایا، ’بیماری کی صورت میں پہاڑوں کے اوپر راستے سے مریض کو چارپائی پر ہسپتال پہنچاتے ہیں۔ ہم قیدیوں کی طرح محصور ہیں اور ہمارا کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے۔‘
حاجی نوروز نے بتایا کہ ایک ٹھیکیدار کو روڈ پر کام کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا تھا اور کچھ دن کام کرنے کے بعد، اب دوبارہ کام بند ہو گیا ہے اور نہ مقامی انتظامیہ روڈ کو کھولنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے اور نہ کسی غیر سرکاری ادارے کے لوگ عوام کی مدد کے لیے پہنچے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ غیر سرکاری امدادی اداروں سے بھی درخواست ہے کہ یہاں کے لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہیں اور خوراک بازار سے لانے کے لیے کوئی بندوبست نہیں ہے۔
پرسان پولیس سٹیشن کے اہلکار عمران نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پرسان روڈ بختی گول علاقے تک کھول دیا گیا ہے لیکن پرسان ویلی تک ابھی بھی بند ہے۔
انہوں نے بتایا، ’ایکسکیویٹر کے ذریعے بختی گول تک روڈ کھول دیا گیا ہے لیکن آگے ایکسکیویٹر کام نہیں کر سکتا اور اسی وجہ سے اب ٹریکٹر پر کام ہو رہا ہے۔ کل (ہفتہ) تک امید ہے کہ روڈ کھل جائے گا تاہم عمران کے مطابق اگر بارشیں دوبارہ شروع ہو گئی تو اس سے کام متاثر ہو سکتا ہے۔‘
ضلع انتظامیہ چترال کی جانب سے انڈپینڈنٹ اردو کو بھیجے گئے موقف میں بتایا گیا ہے کہ پرسان روڈ جزوی طور پر کھول دیا گیا ہے اور اس پر ٹی ایم اے کے ٹھیکیدار نے کام شروع کیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر دفتر میں قائم چترال ٹورسٹ سینٹر کے انچارج ناصر علی شاہ نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 13 تاریخ کو بارشیں شروع ہوئی تھیں اور اس کے بعد 14 اپریل کو انہوں نے اپنی ٹیمیں ڈپلائی کی ہیں۔
انہوں نے بتایا، ’پرسان روڈ پر ابھی سات سے آٹھ کلومیٹر تک کام مکمل ہو چکا ہے لیکن بیچ میں لینڈ سلائیڈنگ کی خطرے کے پیش نظر کام روک دیا گیا تھا لیکن ابھی کام جاری ہے اور جلد ہی مکمل ہو جائے گا۔‘
یاد رہے کہ خیبر پختونخوا میں محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ ہفتے موسمیاتی تغیر کی وجہ سے معمول سے زیادہ بارشیں ہوئی ہیں اور ان بارشوں کی نتیجے میں صوبہ بھر میں 60 سے زائد اموات واقع ہوئی ہیں۔
پرسان روڈ کیسے بنا؟
پرسان روڈ بننے کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔ اس وادی کو ملک کے دیگر حصوں سے جوڑنے کے لیے آج سے 20 سال پہلے کوئی روڈ موجود نہیں تھا اور مقامی لوگ گھوڑوں کے ذریعے سفر کرتے تھے۔
چترال ٹوڈے پر شائع ایک مضمون کے مطابق وہاں کی مقامی آبادی نے ایک دن سامان اٹھا کر پہاڑ کو کھودنے اور روڈ بنانے کا آغاز کر دیا اور اسے روڈ کی شکل دی لیکن روڈ سفر کے لیے تیار نہیں تھا۔
غیر سرکارے ادارے آغا خان رورل سپورٹ پروگرام نے اس کے بعد اس روڈ پر کام کا آغاز کیا اور ایک پکا روڈ عوام کی سہولت کے لیے بنایا گیا اور چھوٹی بڑی گاڑیوں کی سفر کے لیے قابل بنایا گیا۔
آغا خان فاؤنڈیشن کے ایک اہلکار نے انڈیپینڈنٹ اردو کو نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ پارسان روڈ آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کی جانب سے بنایا گیا ہے لیکن اب اس کی مرمت کی ذمہ داری ضلع انتظامیہ اور حکومت کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کوئی 20 سال پہلے اس روڈ کو عوام کی سہولت کے لیے بنایا گیا تھا اور یہ روزانہ کی بنیاد پر سفر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔