صحافی ارشد شریف قتل کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کینیا کے ساتھ باہمی قانونی مدد کے معاہدے کی پاکستان کے صدر سے توثیق کے لیے وفاقی حکومت کو ایک ماہ کا وقت دے دیا۔
جمعے کو سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ جس کے دوران پاکستان کی حکومت نے کینیا، جہاں صحافی ارشد شریف کا مبینہ قتل ہوا تھا، کی حکومت کے ساتھ باہمی طور پر قانونی امداد کا معاہدہ طے ہونے اور صدر مملکت آصف زرداری سے اس کی توثیق کروائے جانے کے لیے عدالت سے ایک ماہ کا وقت مانگا۔
سماعت کے آغاز میں ہی ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کینیا کے ساتھ باہمی قانونی امداد کا معاہدہ ہو چکا ہے، ایک ماہ میں صدر پاکستان آصف علی زرداری سے معاہدے کی توثیق کروا لی جائے گی، جس کا عمل اس وقت جاری ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے اس عمل میں سست روی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا: ’10 دسمبر 2024 کو معاہدہ ہوا، آج تک توثیق کیوں نہیں ہو سکی؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’کیا آپ سے روزانہ کی بنیاد پر پیش رفت کی رپورٹ مانگی جائے؟‘ جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ’تین ماہ گزرنے کے باوجود بھی وقت مانگا جا رہا ہے۔ صدر کو سمری کس نے بھیجنی ہے؟‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا ’وزارت داخلہ کابینہ کی منظوری کے بعد صدر کو سمری ارسال کرے گی، جبکہ وزارت داخلہ سے میرا رابطہ نہیں ہو پا رہا۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا: ’وزارت داخلہ کے افسر تو آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
اس دوران وزارت داخلہ کے جوائنٹ سیکرٹری روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ ’27 فروری کو کابینہ کی منظوری کے بعد وزارت خارجہ کو نوٹ بھجوایا گیا، جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا: ’معاہدے کی منظوری صدر نے دینی ہے تو کیا صدر مسترد بھی کر سکتے ہیں؟‘
وزارت خارجہ کے قانونی مشیر نے جواباً کہا کہ اس حوالے سے وہ کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔
سماعت کے دوران صحافی ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق کے وکیل نے عدالت میں پیش ہو کر کہا کہ کینیا کی ہائی کورٹ نے قتل میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جبکہ وہاں کی حکومت نے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔
وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ’حکومت پاکستان نہ ہی کیس میں فریق بنی اور نہ کوئی تعاون کیا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ’خاتون اکیلی کینیا میں مقدمہ لڑ رہی ہیں، حکومت کو ساتھ دینے میں کیا مسئلہ ہے؟‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا ’حکومت کو جائے وقوعہ تک رسائی نہیں مل رہی، فریق بننے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا، تفتیش کے لیے رسائی اہم ہے جو اسی صورت میں ممکن ہو گی جب باہمی قانونی معاہدہ ہو گا۔ پاکستان میں 30 سے زائد افراد کے بیان ریکارڈ ہو چکے ہیں۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا: ’کئی سال سے از خود نوٹس کیس زیر التوا ہے۔‘
ارشد شریف کی والدہ کے وکیل استدعا کرتے ہوئے کہا: ’حکومت نے معاملے پر فیکٹ فائنڈنگ کروائی تھی، اس کی کاپی فراہم کی جائے۔‘ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’یہ رپورٹ میڈیا میں آنے سے پہلے ہی سارا مسئلہ بنا ہوا ہے۔‘
جوائنٹ سیکرٹری وزارت داخلہ نے کہا ’ہم نے وزارت خارجہ کو باہمی قانونی تعاون کے لیے نوٹ لکھا ہے۔‘
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ ’اب سے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی پیش رفت رپورٹ عدالت میں جمع کروائیں، جبکہ جسٹس امین الدین خان نے کہا ’ہماری بےچینی یہ ہے کہ اتنا عرصہ گزر گیا پھر بھی ارشد شریف کیس میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟‘
جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا: ’کینیا کی عدالت نے فیصلہ جاری کیا تھا اسے عدالتی ریکارڈ پر لائے، کینیا کے ہائی کورٹ نے 24 جولائی کو فیصلہ دیا اور آپ عدالتی ریکارڈ پر نہیں لائے۔‘
عدالت نے بعد ازاں کینیا ہائی کورٹ کا فیصلہ عدالتی ریکارڈ پر لانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ایک مہینے تک ملتوی کر دی۔
ارشد شریف کون تھے کب قتل ہوئے؟
ارشد شریف پاکستان کے نامور صحافی اور اینکر تھے۔ اگست 2022 میں ان کے خلاف کئی مقدمات درج ہونے کے بعد پاکستان چھوڑ گئے تھے۔ ابتدائی طور پر وہ کچھ عرصہ متحدہ عرب امارات میں رہے، جس کے بعد کینیا چلے گئے۔ اکتوبر میں انہیں کینیا میں قتل کر دیا گیا تھا۔
ابتدائی طور پر کینیا کے میڈیا نے مقامی پولیس کے حوالے سے کہا کہ ارشد شریف کو پولیس نے غلط شناخت پر گولی مار کر ہلاک کر دیا، جب کہ بعد میں کینیا کے میڈیا کی رپورٹس نے قتل سے متعلق واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے بتایا کہ ارشد شریف کے قتل کے وقت ان کی گاڑی میں سوار شخص نے پیرا ملٹری جنرل سروس یونٹ کے افسران پر گولی چلائی۔