اس بار تو قربانی کا مزا ہی نہیں آیا۔
پچھلے سال بقرعید سے دو دن پہلے ہم ٹبر سمیت زمانے کی گہما گہمی سے دور گلگت پہنچ گئے۔
ایک دن برسات میں گلگت کی بھیگی ہوئی گلیاں چھانیں اور دوسرے دن ہنزہ کی وادیوں میں اتر گئے۔ گلگت میں بھی خشکا خشکی تھی اور ہنزہ میں بھی ہر طرف خیر خیریت تھی۔ جانوروں کی چہل پہل تھی اور نہ گوبر چارے اور گھاس پھوس کی کوئی بوباس تھی۔ سرِ عام قربانی کے اوزاروں کو دھار لگائی جا رہی تھی اور نہ گائے بکروں کا کوئی جلوس نظر آ رہا تھا۔ زندگی کو یونہی معمول پہ دیکھا تو خیال آیا کہ بڑے بوڑھے ٹھیک ہی بتاتے تھے کہ اسماعیلی قربانی کرتے ہیں اور نہ ہی نماز روزے جیسی کسی عبادت کا تکلف کرتے ہیں۔
عید سے صرف ایک دن قبل وقار نے بتایا کہ صبح نمازِ عید کے لیے گُلمت جانا ہے۔ یہ سن کر حیرت کا ایک جھٹکا سا لگا کہ اچھا تو یہ نماز بھی پڑھتے ہیں؟ پھر تو یہ قربانی بھی کرتے ہوں گے؟ اگر کرتے ہیں تو پھر راوی چین ہی چین کیوں لکھ رہا ہے، ہر شخص یہاں ستو پی کے بیٹھا ہوا ہے، ان کے جسم و جاں میں ایمان کی حرارت کیوں نظر نہیں آ رہی؟
اگلے دن ہم گلمت کی عید گاہ میں پہنچے تو کچھ لوگوں کو عید گاہ کے عقب میں جانوروں کو لے جاتا ہوا دیکھا۔ میں نے پوچھا تو وقار ملک نے بتایا کہ یہ قربانی کے لیے ذبح خانے کی طرف لے جائے جارہے ہیں۔ ذبح خانے کی طرف؟ پتہ چلا کہ یہاں جانور خریدنے میں تو لوگ آزاد ہیں لیکن اپنے جانور کمیونٹی کے حوالے کرنے کے پابند ہیں۔ حوالگی کے بعد یہ سوال ختم ہوجاتا ہے کہ کس کا جانور چھوٹا ہے کس کا بڑا ہے۔ کس نے قربانی کی ہے اور کس نے نہیں کی۔ بلکہ یہاں تو 'ہاں بھئی کتنے کا لیا' جیسی آوازوں کو بھی لوگ بد تمیزی سمجھتے ہیں۔
عید کی نماز ختم ہوئی تو یکایک ثقافتی رنگ ابھر آئے۔ پورے میدان میں دسترخوان لگے اور زمانے بھر نے روایتی پکوانوں کا ناشتہ کیا۔ یہ ناشتہ دراصل حال احوال اور سلام کلام کا ایک بہانہ تھا۔ لوگ گھٹنے سے گھٹنہ جوڑ کے بیٹھے تھے اور اپنی خوشیوں کا تبادلہ کر رہے تھے۔ پس منظر میں چلنے والا ایک عربی گیت فضا میں خوش گواریاں گھول رہا تھا۔ میری سوئی وہیں قربانی اور ذبح خانے میں اٹکی ہوئی تھی۔
مزید جاننے کے لیے میں نے سوال کیا تو بتایا گیا کہ ابھی جو جانور لائے جارہے ہیں یہ تو وہ ہیں جو لوگوں نے کل رات خریدے ہوں گے۔ جو لوگ پہلے ہی جانور خرید لائے تھے وہ تین دن سے پیچھے میدان میں کھڑے ہیں۔ یہ سارے جانور آج اسی ایک مقام پر یکبارگی ذبح ہوں گے۔ شام ہونے سے پہلے پہلے گوشت یہاں کے سارے گھروں میں برابر پہنچا دیا جائے گا۔ گوشت بانٹتے وقت یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ سنی کون ہے اور شیعہ کون۔ مسلم کون ہے غیر مسلم کون۔ امیر کون ہے اور غریب کون۔ گوشت کے لیے اتنی کوالی فکیشن کافی ہوتی ہے کہ آپ انسان ہیں۔
گوشت کی تقسیم کی تو میں چشم دید گواہی نہیں دے سکتا لیکن یہ بتا سکتا ہوں کہ اس عید گاہ میں امامت ایک اسماعیلی پیش نماز نے کروائی تھی مگر اس کی اقتدا میں سنی اور شیعہ بڑی تعداد میں نماز ادا کر رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عید کا پہلا دن شام کو ڈھلنے لگا تو مجھے بیرون ملک مقیم اپنے دوست یاد آنے لگے۔ جب بھی عید قریب آتی ہے ان کی زبان سے ایک ہی رٹ سنائی دیتی ہے کہ یار قربانی تو بس پاکستان میں ہی ہوتی ہے۔ یہاں تو قربانی کا پتہ ہی نہیں چلتا بلکہ سچ پوچھو تو عجیب بے برکتی سی ہوتی ہے۔ میں سوچتا تھا کہ کہ یہاں کی قربانیوں میں ایسا کیا ہوتا ہے جو وہاں نہیں ہوتا۔ ان ولی اولیاؤں کو کیسے سمجھ آجاتا ہے کہ سبی کے بیل میں برکت تھی اور آسٹریلین چت کبرے میں نہیں تھی۔ گلگت اور ہنزہ میں رہتے ہوئے مجھے بے برکتی کا مفہوم اور دوستوں کا درد ایک ہی جھٹکے میں سمجھ آ گیا۔
جب لاکھوں کے جانور خرید کر نمائش کے لیے تمبو نہیں گاڑے جائیں گے، گلیوں کو جانوروں کی لید ملید اور چارے بھوسے سے نہیں بھریں گے، عید سے ایک رات پہلے گلی گلی جانوروں کا جلوس نہیں نکالیں گے، عید کی صبح بچوں کے سامنے چھری خنجر نہیں لہرائیں گے، گھر کے صحن میں، گلیوں اور راستوں میں خون کی ندیاں نہیں بہائیں گے، جانور کے گرنے گرانے کو تماشا نہیں بنائیں گے، نرخرے سے خون کی چھوٹتی ہوئی دھار دیکھ کر کلیجہ ٹھنڈا نہیں کریں گے، جانوروں کے سری پائے، پھیپھڑے انتڑیاں اور ہڈی چربی جگہ جگہ نہیں پھینکیں گے، دیواریں سڑکیں اور فٹ پاتھ خون اور پان کی پچکاریوں سے نہیں رنگیں گے اور شام ڈھلے شہر کی فضا میں آلائشوں کی بو باس نہیں گھولیں گے تو خود بتائیے قربانی میں برکت کیسے پڑے گی؟
اِس بار عید سے دو روز قبل سندھ میں حکومت کی طرف سے ایک ہدایت نامہ جاری کیا گیا۔ ہدایت نامے میں کہا گیا تھا کہ کرونا (کورونا) وائرس کے باعث کیے جانے والے اقدامات کے پیش نظر لوگ انفرادی طور پر گلی محلوں میں قربانی نہیں کر سکیں گے۔ قربانی کے لیے ایک مخصوص مقام کا تعین ہو گا، لوگ وہاں جا کر باری باری اپنی قربانی کریں گے یا پھر اپنے گھر کی چاردیواری میں ہی جانور سے سینگیں اڑائیں گے۔ یہ سن کر میرے کراچی کے دوست گہرے رنج میں چلے گئے۔
ایک دوست سے میں نے کہا، ویسے یہ اچھا نہیں ہوا کیا؟ منہ لٹکا کے بولا، خاک اچھا ہوا، ایک تو بندہ سارا سال پائی پائی جوڑے، ہفتوں ہفتوں منڈیوں میں دھول مٹی چاٹے، دو ہفتوں تک کتا خواری کرکے جانور کی دیکھ بھال کرے اور پھر عید کی صبح طبیلے میں لے جاکر قصائی کو پکڑا دے کہ یہ لے تو ذبح کر لے؟ یہ کرنے والی حرکت ہے کیا؟ قربانی کی تو یار ساری رونق ہی یہ ہے کہ دوست رشتے دار آئے ہوں، خوب ہاڑا ہوڑی کررہے ہوں اور مل ملا کے گھر کے سامنے جانور گرا رہے ہوں۔ اتنی سیدھی سادی قربانی ہی کرنی ہے تو پھر ہم دس بیس ہزار کا حصہ ہی کیوں نہ ڈال لیا کریں؟
جواب میں ہم نے ماحولیات، خون خرابے، بو باس، صحت اور صفائی نصف ایمان حیسی باتیں کیں تو دوست ہتھے سے اکھڑ گیا۔ بولا، کچھ نہیں ہوتا یار ہفتے دو ہفتے کی ہی تو کہانی ہوتی ہے۔ جہاں اتنی گندگی پھیلی ہوئی ہے تھوڑی اور سہی۔ اور تم کس چکر میں آج اتنے بڑے صفائی علی خان بنے ہوئے ہو؟ صفائی نصف ایمان ہے تو نصف ایمان ہی رہنے دو خالی پیلی میں پورا ایمان مت بناؤ اسے، سمجھے نا۔ بلا وجہ دین میں اضافے مت کیا کرو تم۔ آئے بڑے لکھنو کے نفیس میاں۔
اپنے دوست کے جذبات کو تیزی سے بھڑکتا ہوا دیکھ کر میں نے فورا خود کو سمجھایا کہ میاں، اب چپ ہوجاؤ۔ اگر اس نے ہلکا سا ایک خواب بھی دیکھ لیا تو اگلی صبح قربانی کے سارے مفہوم اچھے سے سمجھا دے گا۔