امریکہ کے حوالے کیے جانے والے سابق افغان کمانڈر عبدالظاہر کون ہیں؟

کینیا کے انگریزی اخبار کے مطابق امریکہ کو مطلوب عبدالظاہر قدیر کو کینیا میں گرفتار کر لیا گیا ہے اور انہیں امریکہ کے حوالے کیا جائے گا۔

بھوری ٹوپی پہنے ہوئے عبدالظاہر، جنھیں نیروبی کے ایک مقامی ہوٹل سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ قطر ایئر لائنز کی پرواز پر 14 اپریل، 2025 کو کابل سے نیروبی پہنچے تھے (عبدالظاہر/ انسٹاگرام)

کینیا کے انگریزی اخبار نیروبی ٹائمز کے مطابق امریکہ کو منشیات کے الزام میں مطلوب افغانستان کے سابق رکن قومی اسمبلی عبدالظاہر قدیر کو کینیا میں ایک ہوٹل سے گرفتار کر لیا گیا ہے اور انہیں امریکہ کے حوالے کیا جائے گا۔

نیروبی ٹائمز کا کہنا ہے کہ عبدالظاہر کی گرفتاری اور انہیں امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ نیروبی کی ایک عدالت نے کیا۔

ان کو نیروبی کے ایک مقامی ہوٹل سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ قطر ایئر لائنز کی پرواز کے ذریعے 14 اپریل کو کابل سے نیروبی پہنچے تھے۔

عدالت نے انہیں 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیروبی کے موتھائگا پولیس سٹیشن کے حوالے کیا تھا۔

کینیا کے ڈائریکٹوریٹ آف پبلک پراسیکیوشن کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ نیویارک کی ایک عدالت نے 25 مارچ کو عبدالظاہر کی گرفتاری کے لیے وارنٹ جاری کیا تھا۔

اس کے بعد نیروبی ٹائمز کے مطابق، کینیا کو ایک سفارتی مراسلہ ارسال کیا گیا جس میں ان کی گرفتاری کے حوالے سے بات کی گئی تھی۔

تاہم، عبدالظاہر کی گرفتاری کے وارنٹ یا کینیا سے ان کی حوالگی کے حوالے سے امریکہ نے اب تک باضابطہ طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

افغان اینالسٹ نیٹ ورک، جو ایک غیر سرکاری ادارہ ہے، کے مطابق حاجی عبدالظاہر پر منشیات اور اسلحہ سمگلنگ کے الزامات ہیں۔ وہ 1973 میں ننگرہار میں پیدا ہوئے۔

ادارے کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق عبدالظاہر سابق پولیس کمانڈر تھے اور ان کی ایک نجی مسلح ملیشیا بھی تھی۔ بعد میں انہوں نے سیاست میں حصہ لیا اور افغانستان کے پارلیمنٹ کے سپیکر منتخب ہوئے۔

عبدالظاہر قدیر افغانستان کے مشہور ’جہادی کمانڈر‘ اور حزبِ اسلامی خالص گروپ کے رہنما عبدالقدیر کے بیٹے ہیں۔

ان کے والد عبدالقدیر سوویت یونین کے خلاف لڑے تھے اور 1992 میں کابل پر قبضہ کرنے کے بعد انہیں ننگرہار کا گورنر تعینات کیا گیا تھا۔

1996 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد عبدالظاہر اپنے خاندان سمیت پاکستان منتقل ہو گئے، تاہم بعد میں جرمنی چلے گئے اور تین سال بعد دوبارہ افغانستان واپس آ گئے۔

سابق صدر حامد کرزئی کے دور حکومت میں 2002 میں انہیں پانچ نائب صدور کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا، لیکن ایک ماہ بعد ان کے والد عبدالقدیر کو قتل کر دیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی 2007 کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں منشیات کی روک تھام کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس دوران بعض منشیات سمگلرز کو گرفتار کر کے امریکہ منتقل کیا گیا، تاہم ایک واقعے میں بارڈر پولیس کا ایک ٹرک ننگرہار سے تخار منشیات سمگل کرتے ہوئے پکڑا گیا۔

تفتیش میں معلوم ہوا کہ یہ ٹرک اس وقت کے بارڈر پولیس کمانڈر حاجی ظاہر (عبدالظاہر) کے لوگوں کا تھا۔ تاہم، اس وقت عبدالظاہر کو گرفتار نہیں کیا گیا، لیکن انہیں اپنے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔

بعد ازاں، 2010 کے انتخابات میں عبدالظاہر افغانستان کی پارلیمنٹ (اولسی جرگہ) کے رکن منتخب ہوئے اور 2012 میں اسمبلی کے سپیکر بنے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق، 2017 میں جلال آباد میں عبدالظاہر کے حجرے پر دھماکہ ہوا جس میں ان کے دو سکیورٹی گارڈز مارے گئے۔

اس دھماکے کی ذمہ داری نام نہاد داعش خراسان نے قبول کی تھی۔ رپورٹس کے مطابق عبدالظاہر نے بعد میں ننگرہار میں داعش کے خلاف اپنی نجی ملیشیا کا استعمال کیا اور ان کے خلاف کارروائیاں جاری رکھیں۔

افغان بائیوز نامی ویب سائٹ، جو افغانستان کی مشہور شخصیات کا پروفائل ڈیٹا مرتب کرتی ہے، کے مطابق عبدالظاہر نے ہائی سکول کی تعلیم سعودی عرب سے حاصل کی اور پاکستان سے قانون کی تعلیم مکمل کی۔

انہوں نے ننگرہار میں کمپیوٹر سائنس اور انگریزی زبان کے مراکز بھی قائم کیے، جبکہ حامد کرزئی کے صدر بننے کے بعد عبدالظاہر نے ان کے خلاف بھرپور انداز میں تقاریر کیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا