پنجاب کے وزیر معدنیات سردار شیر علی گورچانی نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک سروے کے مطابق ضلع اٹک سے گزرنے والے دریائے سندھ میں چھ سے سات سو ارب روپے مالیت کا سونا ملنے کا امکان ہے۔
گورچانی نے انڈپیںڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں یہ معلومات تھیں کہ اٹک میں جہاں دریائے کابل اور دریائے سندھ ملتے ہیں وہاں پلیسر گولڈ کے ذخائر موجود ہیں، لیکن ہم نے ان باتوں پر یقین نہیں کیا بلکہ جیوجیکل سروے آف پاکستان کو ہدایات دیں کہ اس پر تحقیق کر کے اصل صورت حال بتائیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ایک سال تک تحقیق کے بعد انہوں (جیوجیکل سروے آف پاکستان) نے رپورٹ دی کہ وہاں سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ اس حوالے سے نیسپاک کو بھی آن بورڈ لیا گیا تاکہ وہ بھی اس بارے میں رپورٹ دیں۔
’انہوں نے بھی تصدیق کر دی ہے۔ اس بارے میں وزیر اعلیٰ (پنجاب) کو بریفنگ دی جائے گی تاکہ شفاف طریقے سے اس کام کی نیلامی کریں۔‘
وزیر معدنیات پنجاب کا کہنا تھا کہ ’ہم اس کی نیلامی عالمی سطح پر کرائیں گے تاکہ مقامی اور عالمی کمپنیاں شرکت کریں۔ یہاں 28 لاکھ تولہ سونے کی موجودگی کی رپورٹ ملی ہے۔‘
تاہم محکمہ معدنیات پنجاب کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اٹک میں دریا کے کناروں پر سونے کے ذرات موجود ہونے کی تصدیق تو پہلے سے ہے، لیکن یہ پلیسر گولڈ ہے خالص سونا نہیں۔ تاہم اس کی مقدار اتنی زیادہ نہیں جتنی رپورٹ کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز سے ملاقات ہو گی جس میں تمام پہلووں کا جائزہ لیا جائے گا تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہاں کتنی مقدار میں سونا موجود ہے، پھر اس بارے میں حتمی لائحہ عمل بنایا جا سکے گا۔‘
اس افسر کے مطابق: ’اٹک میں سونا ملنے کے حوالے سے حتمی حکمت عملی وزیر اعلیٰ کی ہدایت کے مطابق بنائی جائے گی، کیونکہ ابھی یہ تصدیق نہیں ہوئی کہ سونا کتنی مقدار میں موجود ہے اور کس طرح حاصل کیا جا سکے گا۔‘
دریائے سندھ کے کنارے گلگت کے علاقے شمشال میں سونا تلاش کرنے والے محمد جہانزیب نے بتایا کہ ’سونے کے ذرات زیادہ تر شمشال کے پہاڑی علاقوں سے نیچے آ کر دریا کے کناروں پر ریت میں پائے جاتے ہیں۔
’پہلے تو وہ مقام تلاش کرنا پڑتا ہے جہاں سونے کے ذرات موجود ہوں، اس کے بعد وہاں کئی گھنٹے ریت کو چھانا جاتا ہے۔ یہ عمل کئی دن تک کریں تو کبھی کبھار ایک دو ماشے سونا ہی جمع ہوتا ہے۔‘
پنجاب یونیورسٹی میں جغرافیہ کے پروفیسر ڈاکٹر منور صابر کے مطابق: ’اس میں کوئی شک نہیں پاکستان کے دریا اور پہاڑ خزانوں سے مالا مال ہیں، لیکن اٹک میں دریا سے اربوں روپے مالیت کا سونا ملنے کا جو دعوی کیا جا رہا ہے اس میں پوری طرح سچائی دکھائی نہیں دیتی۔
’کیونکہ دریاؤں کے کنارے سونے کے ذرات تو ہو سکتے ہیں لیکن انہیں بڑی تعداد میں نکالنا یا جمع کرنا اتنا آسان کام نہیں لہٰذا انتظار کرنا پڑے گا کہ اگر سونا نکالنے کا کام شروع کیا جاتا ہے تو اس سے کیا حاصل ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر منور صابر کے بقول: ’اٹک میں سونا اگر اتنی بڑی مقدار میں موجود ہے کہ اسے نکالنے کے اخراجات پورے ہونے کے بعد کوئی فائدہ ہو تو ہی سونا نکالا جا سکتا ہے، اگر سونا نکالنے کی قیمت زیادہ ادا کرنا پڑی اور سونا اتنی مقدار میں نہ نکلا تو نقصان کا خدشہ بھی موجود ہے۔
’ٹھیکہ لینے والی کمپنیوں پر چیک ایند بیلنس رکھنا لازمی ہوگا تاکہ حقائق حکومت کو معلوم ہو سکیں۔‘
سونا تلاش کرنے کے روایتی طریقے
دریائے سندھ کے کناروں پر پانی کے ساتھ ریت میں آنے والے سونے کی تلاش پہاڑی علاقوں میں عرصہ دراز سے جاری ہے۔
مقامی سطح پر لوگ یہاں سارا دن لگا کر سونے کے ذرات جمع کرتے ہیں اور انہیں فروخت کر کے گزر بسر کرتے ہیں۔
اسی دریا کے کنارے کوہاٹ اور نوشہرہ کے مقام پر خیبر پختونخواہ حکومت کئی پوائنٹ ٹھیکے پر دے چکی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما ملک امین اسلم نے منگل کو میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’پنجاب حکومت کو اٹک میں دریا سے سونا نکالنے کا سروے کرنے کا خیال کے پی حکومت کی جانب سے اپنی حدود میں علاقے ٹھیکے پر دینے کے بعد آیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سونا تلاش کرنے کے ماہر محمد جہانزیب کے بقول: ’دریا کے کنارے جہاں سونا موجود ہو وہاں روایتی طریقوں سے تصدیق کی جاتی ہے کہ سونا کس جگہ پر ذرات کی شکل میں ریت کے ساتھ موجود ہے۔
’پھر جہاں اندازہ ہو وہاں سے دریا کی ریت کو ہاتھوں کے ذریعے یا ایک چھان کے ذریعے چھانا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’چھاننے کے اس عمل میں ایک مخصوص قسم کی جالی سے چھان کے ذریعے ریت اور پانی کو الگ کیا جاتا ہے، پھر مزید باریک جالی سے ریت اور سونے کے ذرات کو الگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
’ریت میں بار بار پانی ڈال کر چھاننے کا عمل دس دس بار کیا جاتا ہے۔ یہ عمل سارا سارا دن جاری رہتا ہے ذرہ ذرہ جمع کر کے اگر سونا زیادہ موجود ہو تو دو چار دن میں ایک آدھ ماشے ہی جمع ہو پاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد سونا خریدنے والے اسے گرم کرکے خالص سونا نکالتے ہیں جو مزید کم نکلتا ہے۔‘
محمد جہانزیب نے بتایا کہ ’دریا کے کنارے جہاں بھی سونے کی موجودگی مصدقہ ہو وہاں سے بھی بڑی مقدار میں ریت سے چند ذرات ہی ملتے ہیں۔
’اگر جدید مشینری بھی استعمال کی جائے تو وہ سونا تو وہی نکالے گی جو موجود ہو گا لہذا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ اربوں روپے مالیت کا سونا دریا کے کنارے ریت سے نکالنا ممکن ہوتا ہے۔‘
جہانزیب کا کہنا تھا کہ ’اگر دریائے سندھ کے کناروں پر ریت میں سونے کی اتنی مقدار موجود ہوتی تو ہم سالہا سال سے نسل در نسل سونا تلاش کرنے والے کروڑ پتی نہ ہو چکے ہوتے؟‘