اقوام متحدہ اور فلسطینی نمائندوں نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی امداد کو ’جنگ کے ہتھیار‘ کے طور پر استعمال اور امداد کی رسائی کو روک کر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
یہ الزام سماعت کے پہلے روز اسرائیل پر عائد کیا گیا ہے کہ وہ غزہ میں امداد کی فراہمی کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کر رہا ہے۔
دو مارچ سے اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے 23 لاکھ رہائشیوں کے لیے تمام امدادی سامان مکمل طور پر روک دیا ہے اور سال کے آغاز میں جنگ بندی کے دوران ذخیرہ کی گئی خوراک تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
بین الاقوامی عدالت کی سماعت کے آغاز پر، اقوام متحدہ کے قانونی مشیر ایلنور ہیمرشکیلڈ نے کہا کہ اسرائیل کی واضح ذمہ داری ہے کہ وہ ایک قابض قوت کے طور پر غزہ کے عوام کے لیے انسانی امداد کی فراہمی کی اجازت دے اور اسے آسان بنائے۔
ایلنور ہیمرشکیلڈ نے کہا کہ ’مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں موجودہ صورتحال کے خاص تناظر میں، ان ذمہ داریوں کا مطلب ہے کہ اقوام متحدہ کے تمام متعقلہ اداروں کو مقامی آبادی کے فائدے کے لیے سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت دی جائے۔‘
فلسطینی نمائندے عمار حجازی نے کہا کہ اسرائیل انسانی امداد کو ’جنگ کے ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کر رہا ہے، جب کہ غزہ میں لوگ قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون سائر نے کہا کہ اسرائیل نے اپنے موقف کو تحریری طور پر عدالت میں پیش کیا ہے، جسے انہوں نے ’سرکس‘ قرار دیا ہے۔
پیر کو مقبوضہ بیت المقدس میں گفتگو کرتے ہوئے سائر نے کہا کہ عدالت کو سیاست کی نظر کیا جا رہا ہے اور اقوام متحدہ غزہ میں موجود فلسطینی پناہ گزین ایجنسی انروا کے ایسے ملازمین کو نکالنے میں ناکام ہو رہا ہے جو حماس کے گروپوں کے ارکان ہیں۔
سائر نے کہا کہ ’یہ عدالت کو دوبارہ غلط استعمال کر کے اسرائیل کو اس تنظیم کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو حماس سے بھری ہوئی ہے۔ اس کا مقصد اسرائیل کے دفاع کے سب سے بنیادی حق کو چھیننا ہے۔‘
بین الاقوامی عدالت انصاف، جسے عالمی عدالت بھی کہا جاتا ہے، کو دسمبر میں اسرائیل کی ذمہ داریوں پر مشاورتی رائے دینے کا ہدف دیا تھا کہ فلسطینیوں کو امداد پہنچانے کے لیے جو ریاستیں اور بین الاقوامی گروہ امداد فراہم کرتے ہیں، ان کے حوالے سے کیا ذمہ داریاں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیل بار بار کہہ چکا ہے کہ وہ غزہ میں سامان اور امدادی سامان کی داخلے کی اجازت نہیں دے گا جب تک حماس تمام باقیات یرغمالیوں کو نہیں چھوڑ دیتی۔ اسرائیل نے حماس پر امدادی سامان کو ہائی جیک کرنے کا الزام عائد کیا ہے، جو کہ حماس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
عمار حجازی نے جو نیدرلینڈز میں فلسطینی مشن کے سربراہ ہیں، سماعت کے دوران کہا کہ ’یہ مقدمہ اسرائیل کے بارے میں ہے جو فلسطین میں زندگی کی بنیاد کو تباہ کر رہا ہے، جب کہ وہ اقوام متحدہ اور دیگر امدادی اداروں کو غزہ کے محصور علاقے میں لوگوں تک زندگی بچانے والی امداد پہنچانے سے روک رہا ہے۔‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کو کہا کہ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو پر زور ڈالا تھا کہ وہ غزہ میں خوراک اور دوا کی فراہمی کی اجازت دیں۔
جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے پچھلے ہفتے محصور غزہ میں انسانی امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی کی اجازت دینے کی اپیل کی تھی۔
بین الاقوامی عدالت انصاف کی مشاورتی آرا قانونی اور سیاسی لحاظ سے اہمیت رکھتی ہیں، حالانکہ یہ پابند نہیں کرتیں اور عدالت کے پاس ان کے نفاذ کی کوئی قوت نہیں ہوتی۔
سماعتوں کے بعد، عالمی عدالت کو اپنی رائے تشکیل دینے میں چند مہینے لگ سکتے ہیں۔