سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے کیس میں متفرق اپیلوں کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پالیسی فیصلہ حکومت جو مرضی کرے عدالت نے تو اپنا کیس دیکھنا ہے، حکومت کے پالیسی فیصلے سے مقدمہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، یہ پالیسی فیصلہ بھی کر لیں کہ سول نظام ناکام ہوچکا ہے سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں۔
پیر کے روز آئینی عدالت کے سات رکنی آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں فوجی عدالتوں میں سولینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔
بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد مظہر علی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ’تین نکات پر دلائل عدالت کے سامنے رکھوں گا، پہلا نکتہ یہ ہے کہ نو مئی کو کیا ہوا تھا، دوسرا نکتہ عدالت کو کرائی گئی یقین دہانیوں پر عمل درآمد کا ہے، تیسرا نکتہ اپیل کا حق دینے سے متعلق ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ’گذشتہ ہفتے فیصلہ ساز نہروں کے مسئلے اور پاکستان انڈیا تنازع میں مصروف رہے، اپیل کے حق والے نکتے پر حکومت سے مشاورت کے لیے مزید ایک ہفتہ درکار ہو گا۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’پارلیمنٹ کی صوابدید ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرے یا نہ کرے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ’آپ کو تینوں نکات پر دلائل کے لیے کتنا وقت درکار ہو گا؟‘ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’45 منٹ میں دلائل مکمل کر لوں گا کیونکہ قانونی نکات پر خواجہ حارث دلائل مکمل کر چکے ہیں۔‘
عدالت نے مزید سماعت پانچ مئی تک ملتوی کر دی۔
گذشتہ برس دسمبر میں 26ویں ترمیم کے تحت بننے والے آئینی بینچ نے اس مقدمے کو روزانہ کی بنیاد پر سننا شروع کیا تھا جس میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے مفصل دلائل دیے جبکہ ملزمان اور دیگر درخواست گزاروں کے وکلا نے بھی دلائل دیے۔
جواب الجواب عید الفطر کے بعد شروع ہوئے جو مکمل ہو چکے ہیں، اب صرف اٹارنی جنرل پاکستان کے دلائل باقی ہیں۔