ٹرین حملہ: آن ریکارڈ کچھ بتانے میں ہچکچاہٹ کیوں؟

عسکریت پسندوں کے صفائے کے لیے آپریشن کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ان کے ’پروپیگنڈے‘ کا مقابلہ کرنے کی بھی کوئی حکمت عملی ہونی چاہیے۔

11 مارچ 2025 کی اس تصویر میں ایک سکیورٹی اہلکار ٹرین سے رہا ہونے یرغمالی مسافروں کے ساتھ مچھ سٹیشن پر کھڑا ہے (اے ایف پی/ بنارس خان)

لگ بھگ 400 مسافروں سے بھری جعفر ایکسپریس پر حملے اور اس کے قیدیوں کو یرغمال بنائے جانے کو تقریبا 24 گھنٹوں سے زائد کا وقت گزر چکا ہے لیکن حکومت کی جانب سے کسی ترجمان نے میڈیا کے سامنے آ کر درست معلومات شئیر کرنے کا کشٹ نہیں اٹھایا ہے۔

اگر یہ واقعہ کسی اور ملک میں ہوتا تو حکومت اور ریاست ادروں کے اعلیٰ عہدیدار اگر لمحہ بہ لمحہ نہیں تو وقتاً فوقتاً ضرور بدلتی صورت حال کے بارے میں میڈیا کو بتاتے ہیں تاکہ افواہوں اور قیاس آرائیوں کا تدارک ہوسکے۔ اس ٹرین واقعے کے بارے میں بھی لوگوں کے ذہنوں میں کافی زیادہ سوالات موجود ہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں اس سے قبل ایسے کسی واقعے کی نظیر نہیں ملتی کہ ٹرین کو عسکریت پسندوں نے اپنے قبضے میں لیا ہوا۔ تاہم اس غیر معمولی حملے اور اس کی بعد کی صورت حال پر جو اپ ڈیٹس یا اطلاعات سامنے آئیں بھی تو وہ یا سکیورٹی ذرائع سے یا پھر کئی گھنٹوں کے بعد بازیاب ہونے والے یرغمالیوں کی زبانی۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق حملہ کرنے والے 27 عسکریت پسندوں کو مارا جا چکا ہے اور باقی کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اندازاً حملہ آور ہیں کتنے اور موقعے پر ان کے خلاف کارروائی کی کس نوعیت کی ہے۔

دوسری جانب حملہ کرنے والی شدت پسند تنظیم بلوچ لیبریشن آرمی کل رات تک مسلسل میڈیا کو بیانات جاری کر رہی تھی۔

ریلوے حکام بھی یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ آیا ٹرین مکمل طور پر کسی سرنگ میں ہے یا اس کا کچھ حصہ۔ ایسے میں مسلسل قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے اور سکیورٹی ذرائع نے بھی متبنہ کیا ہے کہ پڑوسی ملک انڈیا یا میڈیا اور ملک دشمن سوشل میڈیا اکاؤنٹس مل کر مسلسل گمراہ کن، جھوٹا اور فیک پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سکیورٹی ذرائع نے یہ بھی کہا کہ پروپیگنڈا اور فیک نیوز  پھیلانے میں پرانی ویڈیوز، اے آئی سے تیار کردہ ویڈیوز، پرانی تصاویر، فیک وٹس ایپ پیغامات اور پوسٹرز کے ذریعے ہیجان پیدا کرنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔

عوام سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے گمراہ کن اور من گھڑت پروپیگنڈا کی بجائے مستند ذرائع سے دی جانے والی معلومات پر اکتفا کریں۔

اس سے یہ واضح ہوا کہ حکومت اور اس کے اداروں کا یہ ادراک تو ہے کہ اس صورت حال میں ’پروپیگنڈا‘ سے ہیجان کی صورت حال پیدا ہو رہی ہے لیکن اس کا تدارک نہیں کیا جا رہا ہے۔

اس غیر معمولی عسکریت پسند حملے سے متعلق نا صرف وہ سینکڑوں خاندان مصدقہ معلومات کے منتظر ہیں جن کے پیارے ریل گاڑی پر سوار تھے بلکہ ملک کے کروڑوں لوگ بھی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ عسکریت پسندوں سے کیسے نمٹا جا رہا ہے۔

یہ بات اپنی جگہ اہم کہ عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کی مکمل تفصیلات تو سکیورٹی خدشات کے سبب لمحہ بہ لمحہ بتانا ممکن نہیں لیکن اب تک جو کچھ ہو چکا اس کے بارے میں اگر بتا دیا جائے تو لوگوں کی کچھ تسلی ہو سکتی ہے۔

 
اگر کوئی سیاسی معاملہ ہوتا دن میں کئی مرتبہ حکومت کے ترجمان اور حامی پریس کرتے اور ایک ہی موضوع پر بار بار اپنی طبع آزمائی کرتے لیکن ایک ایسے حملہ جس کے بارے میں جاننے کے لیے عوام بے چین ہے حکومتی ترجمانوں نے چپ سادھ رکھی ہے۔

فی الوقت دو محاذوں پر عسکریت پسند سرگرم ہیں ایک تو جہاں انہوں نے ٹرین کو قبضے میں لے کر مسافروں کو یرغمال بنائے رکھا ہے اور دوسرا سوشل میڈیا کے ذریعے مسلسل اپنے بیانات سے اپنا موقف پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس لیے اگر انہیں شکست دینی ہے تو صرف عسکری آپریشن سے نہیں بلکہ جارحانہ میڈیا سٹریٹجی بھی ضروری ہے تاکہ نہ صرف حملہ آوروں کے ممکنہ ’منفی پروپینگڈے‘ کا بروقت جواب دیا جا سکے بلکہ ہیجان کی صورت کے خاتمے کے لیے لوگوں کو اعتماد دیا جا سکے کہ ریاست اپنے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔

سکیورٹی حکام نے بدھ کی سہ پہر کہا ہے کہ جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والے ’دہشت گردوں‘ کے خلاف پاکستان ایئرفورس بھی آپریشن میں شریک ہیں اور جدید ڈرون بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔

حکام کے مطابق وزیراعظم مسلسل صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں جبکہ آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر اور جی ایچ کیو میں اہم سیکیورٹی اجلاس منعقد ہو رہے ہیں۔ اس علاوہ حکام کی طرف سے یہ بھی بتایا گیا کہ  حکومت نے صورت حال پر غیر ضروری سنسنی سے بچنے کے لیے پریس ریلیز جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا، تاکہ قوم کا حوصلہ بلند رہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ