کینیا میں پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں اکتوبر 2022 میں پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کے خلاف ان کی اہلیہ کی جانب سے دائر درخواست پر کینیا کی عدالت میں آج (بروز منگل) مختصر سماعت ہوئی، جسے بعدازاں سات مئی تک ملتوی کردیا گیا۔
ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’(آج کی سماعت میں) تجاویز جمع کروانی تھیں لیکن جج نے کہا کہ تمام فریق متعارف کروائے گئے نئے پورٹل پر اپنی تجاویز جمع کروائیں اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو خود آ کر بھی عدالت میں وہ تجاویز یا معروضات جمع کر وا سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’مختصر سماعت تھی اور میرے وکیل آن لائن رابطہ نہ ہو سکنے کے سبب پیش نہ ہو سکے اور وہ ایک طرح سے غیر حاضر تھے، جس پر میں نے خود ہی بات کی اور جج کو یہ بتایا کہ ارشد شریف کے قاتلوں کی نہ تو شناخت ظاہر کی گئی ہے اور تحقیقات کے حوالے سے انکوائری رپورٹ بھی انہیں فراہم نہیں کی گئی۔‘
بقول جویریہ صدیق: ’میں نے استدعا کی کہ ہمیں انصاف دیا جائے اور اب سات مئی کو دوبارہ سماعت ہے، (جہاں) تمام لوگوں کی جمع کروائی گئی تجاویز پر بحث کا آغاز ہوگا۔‘
ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق کی درخواست پر گذشتہ برس اکتوبر میں یہ مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔
اس درخواست کی ابتدائی سماعت دسمبر 2023 میں کینیا کی ہائی کورٹ میں ہوئی تھی، جس میں جج نے پولیس اور دیگر ملزمان کی طرف سے درخواست پر اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے تمام فریقین کو تفصیلی جواب دینے کے لیے آج (30 اپریل) کے لیے نوٹس جاری کیے گئے تھے۔
ارشد شریف کی اہلیہ کی کینین پولیس کے خلاف درخواست
ارشد شریف کا قتل 23 اکتوبر 2022 کو کینیا میں ہوا تھا، جس کے بعد کینیا کی پولیس نے اعتراف کیا تھا کہ غلط شناخت کے باعث ان کی گاڑی پولیس کی گولیوں کی زد میں آئی۔ واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کو حراست میں لیا گیا تھا لیکن بعد ازاں انہیں نوکری پر بحال کر دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جویریہ صدیق نے اپنے شوہر کے قتل میں ملوث کینیا پولیس کے اہلکاروں کے خلاف درخواست کینیا کی عدالت میں دائر کی تھی۔
انہوں نے اس وقت انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ درخواست میں انہوں نے جی ایس یو جرنل سروس یونٹ کو فریق بنایا ہے، ہمراہ پانچ پولیس اہلکاروں کے، جو قتل کے مقدمے میں نامزد تھے۔ اس کے علاوہ کینیا کے اٹارنی جنرل، ڈائریکٹر آف پبلک پراسیکیوشن، آئی جی نیشنل پولیس سروس، انڈپینڈنٹ پولیس اور نیشنل پولیس سروس کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا: ’وہ خود درخواست گزار ہیں اور ان کے ہمراہ کینیا یونین آف جرنلسٹ (کینیا میں صحافیوں کی تنظیم)، کینیا کارسپونڈینس ایسوسی ایشن بھی ہیں۔ اس کے علاوہ چار عالمی ادارے، آئی سی ایف جے، آئی ڈبلیو ایم ایف، میڈیا ڈیفینس اور ویمن جرنلزم بھی شامل ہیں، جو ہر طرح کی معانت فراہم کریں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کیس کی پیروی کے لیے کینیا کے سپریم کورٹ کے وکیل اویچل ڈیوڈلی کی خدمات حاصل کی ہیں جو گیارہ برسوں سے وکالت کر رہے ہیں۔‘
سپریم کورٹ میں ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ارشد شریف قتل کیس میں تحقیقات کی پیش رفت پر ازخود نوٹس لیا تھا۔ اس معاملے کی کئی سماعتیں ہوئیں لیکن سابق چیف جسٹس نے ریٹائرمنٹ سے قبل اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا۔
ارشد شریف ازخود نوٹس کیس کی آخری سماعت سپریم کورٹ میں جون 2023 میں ہوئی تھی۔ جویریہ صدیق نے اس وقت کے چیف جسٹس سے اس معاملے پر شکوہ بھی کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں کا پاکستان اور کینیا کو خط
اسی معاملے پر گذشتہ برس اکتوبر میں اقوام متحدہ کے دو خصوصی نمائندوں نے پاکستانی اور کینیا کی حکومتوں کو خط لکھے اور کسی بھی سنجیدہ تحقیقات میں تعاون کرنے میں ناکامی پر مایوسی کا اظہار کیا۔
اس خط کی نقول کینیا، پاکستان اور اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات بھی بھیجی گئیں، جس میں کہا گیا تھا کہ ’اقوام متحدہ کے ماہرین کے خطوط سے بالکل واضح ہے کہ کینیا اور پاکستان دونوں کی جانب سے صحافی کے قتل کے صحیح حالات کا تعین کرنے اور ذمہ داروں کی نشاندہی کرنے کی خواہش کا واضح فقدان ہے۔ اس مرحلے پر، کینیا میں ابتدائی تحقیقاتی انتہائی ناقص ہیں اور پاکستانی سکیورٹی سروسز کی تحقیقات بالکل یک طرفہ رہی ہیں۔ اس قتل میں دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کے پیش نظر آزاد بین الاقوامی تحقیقات ہی حقائق کا تعین کر سکیں گی۔‘
حکومت پاکستان کا اقوام متحدہ کے خط کا جواب
اس کے جواب میں پاکستانی حکومت نے بھی انہیں خط لکھا، جو کہ پبلک دستاویز ہے اور اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔
حکومت پاکستان نے بذریعہ مستقل مشن جنیوا خط کا جواب دیا، جس کے مطابق: ’حکومت پاکستان ارشد شریف کے افسوس ناک قتل کی پیروی کرنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے تاکہ انصاف کی فراہمی ہو اور جو لوگ اس گھناؤنے فعل کے ذمہ دار پائے جائیں ان کا محاسبہ کیا جائے۔ حکومت اس کیس کی پیچیدگی پر اقوام متحدہ کی توجہ مبذول کروانا چاہتی ہے، چونکہ یہ جرم پاکستان کی حدود سے باہر کینیا میں ہوا تھا۔‘
جوابی خط میں مزید لکھا گیا کہ ’حکومت کینیا میں متعلقہ حکام کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔ کینیا کی حکومت کا تعاون مقدمے کی مجرمانہ تحقیقات کے جلد از جلد اختتام کے لیے اہم ہے، جس کی سرزمین پر ارشد شریف کے زندگی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔‘
خط میں امید کا اظہار کیا گیا کہ ’کینیا اپنے ملکی قوانین اور طریقہ کار کے مطابق جاری تفتیشی عمل کو تیز کرے گا۔ اس سلسلے میں، کیس پر کینیا کی حکومت کے ساتھ اقوام متحدہ کا رابطہ حوصلہ افزا ہے۔‘