اقوام متحدہ کی ماہر کا ارشد شریف قتل کے مکمل احتساب کا مطالبہ

اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ نے کہا کہ ’کینیا کی ہائی کورٹ کے فیصلے کے باوجود مجھے اس بات پر شدید تشویش ہے کہ نہ تو کینیا کے حکام اور نہ ہی پاکستانی حکومت نے اس کیس کی مکمل تحقیقات کے لیے اپنی کوششیں تیز کی ہیں۔‘

کینیا میں قتل ہونے والے صحافی ارشد شریف کے یوٹیوب چینل پر22  اکتوبر کو شائع ہونے والے ان کے آخری وی لاگ سے لیا گیا سکرین شاٹ

اقوام متحدہ کی ایک ماہر نے مطالبہ کیا ہے کہ کینیا اور پاکستانی حکام کو پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کی مکمل تحقیقات کے لیے کوششیں تیز اور کینیا کی ایک عدالت کے ’تاریخی فیصلے‘ کے مطابق ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ چلانا چاہیے۔

اقوام متحدہ میں آزادی رائے کی خصوصی نمائندہ آئرین خان نے کہا: ’ارشد شریف کی موت کو اب تقریباً دو سال ہوچکے ہیں اور کینیا کی ہائی کورٹ نے ان کے قتل کو غیر قانونی، من مانی اور غیر موزوں قرار دیتے ہوئے تاریخی فیصلہ سنایا تھا لیکن شوٹنگ میں ملوث کسی بھی پولیس افسر کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے اور کینیا میں استغاثہ کی طرف سے ابھی تک کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی ہے۔‘

اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں خصوصی نمائندہ نے کہا کہ ’کینیا کی ہائی کورٹ کے فیصلے کے باوجود مجھے اس بات پر شدید تشویش ہے کہ نہ تو کینیا کے حکام اور نہ ہی پاکستانی حکومت نے اس کیس کی مکمل تحقیقات کے لیے اپنی کوششیں تیز کی ہیں۔‘

ارشد شریف کو اکتوبر 2022 میں نیروبی کے قریب ایک شاہراہ پر کینیا کے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے قتل کر دیا تھا۔ کینیا کے سکیورٹی حکام نے اسے غلط شناخت کا معاملہ قرار دیا تھا۔ آٹھ جولائی 2024 کو ارشد شریف کے خاندان کی طرف سے دائر کیے گئے ایک مقدمے کے بعد کینیا کی ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا کہ ارشد شریف کی موت میں مہلک طاقت کا استعمال غیر قانونی اور غیر آئینی تھا اور کینیا کی ریاست کو شریف خاندان کو معاوضے کے طور پر ایک کروڑ شلنگ (ساڑھے 77 ہزار ڈالر) ادا کرنے چاہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آئرین خان نے کہا کہ ’ہائی کورٹ کا فیصلہ ایک اہم فتح ہے لیکن اس کا حقیقی اثر تب ہی محسوس ہوگا جب دونوں کینیا اور پاکستان کی حکومتیں ارشد شریف کے قتل کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔

ریاستی سرپرستی میں پاکستانی خصوصی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے دسمبر 2022 میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ارشد شریف کی موت بین الاقوامی عناصر کی منصوبہ بندی اور ٹارگٹڈ قتل کے نتیجے میں ہوئی۔ ارشد شریف اس سے قبل پاکستان کے قومی اداروں کو بدنام کرنے کے الزام میں گرفتاری سے بچنے اور اپنی جان کو لاحق خطرات کی وجہ سے پاکستان سے فرار ہو گئے تھے۔

اکتوبر 2023 میں اقوام متحدہ کے ماہرین نے کینیا اور پاکستانی حکام کو خط لکھ کر اس قتل اور ارشد کی جلاوطنی کا باعث بننے والے الزامات کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

آئرین خان نے کہا: ’ارشد شریف اور ان کے خاندان کے لیے اس وقت تک انصاف ممکن نہیں جب تک کہ اس قتل کے پس پردہ حالات کو مکمل طور پر واضح نہیں کیا جاتا، بشمول اس کے کہ یہ ایک بین الاقوامی جرم تھا اور کینیا اور پاکستان میں تمام ذمہ داروں کی شناخت، ان کے خلاف مقدمہ اور سزا سنائی جائے۔‘

فروری 2023 میں پاکستان کی سپریم کورٹ کی طرف سے قائم کی گئی ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ کینیا کے حکام نے انہیں شواہد اور جائے وقوعہ تک رسائی سے انکار کر دیا ہے، جس سے ان کی تفتیش کو مؤثر طریقے سے روک دیا گیا ہے۔

آئرین خان نے کہا: ’میں کینیا اور پاکستانی حکومتوں پر زور دیتی ہوں کہ وہ مکمل احتساب کو یقینی بنانے اور ارشد شریف کے قتل کے تمام ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے سیاسی عزم کو یکجا کریں تاکہ یہ کیس صحافیوں کے قتل کے لیے استثنیٰ کے خلاف جنگ میں ایک تاریخی حوالہ بن سکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا