جانوروں کے حقوق اور تحفظ کے لیے سرگرم پاکستان اینیمل ویلفیئر سوسائٹی کی ڈائریکٹر ماہرہ عمر کا کہنا ہے کہ کراچی چڑیا گھر جانوروں کے لیے موزوں جگہ نہیں ہے اور اسے ختم ہو جانا چاہیے۔
حال میں کراچی چڑیا گھر کا دورہ کرنے والی ماہرہ نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ چند ویڈیوز شیئر کیں اور بتایا کہ ’کراچی چڑیا گھر میں موجود جانور مناسب حالات میں نہیں ہیں، خاص طور پر رانو نامی براؤن بھالو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس بھالو کو 2017 میں کراچی چڑیا گھر لایا گیا تھا، تب سے ہم اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ رانو بھالو کے لیے چڑیا گھر مناسب جگہ نہیں ہے، کیونکہ یہ بھالو سرد علاقے میں رہنے والا جانور ہے، جسے کراچی کے گرم درجہ حرارت میں رکھا گیا ہے۔ اب گرمیاں پھر اپنا زور پکڑ رہی ہیں تو خدشہ ہے کہ اس کی طبیعت پر گرمیاں اثر انداز ہوں گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماہرہ نے مزید بتایا کہ ’چار ہفتے قبل ہم نے کراچی میونسپل کمیٹی کو یہ مشورہ دیا تھا کہ اس بھالو کو پنجاب کی بھالو سینکچوری یا سکردو منتقل کیا جائے، جس کے بعد کے ایم سی کی جانب سے ایک کمیٹی بنائی گئی، جو چار افراد پر مشتمل تھی لیکن ڈیڑھ ماہ کا وقت گزرنے کے باوجود بھی کوئی جواب سامنے نہیں آ سکا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چڑیا گھر میں شور شرابے کی آلودگی ہے، جانوروں کے پنجروں کے قریب فن لینڈ ہے جہاں لاؤڈ سپیکر لگا ہوا ہے۔ چھٹی کے روز شہری اپنے ساتھ بھی سپیکرز لاتے ہیں، جانوروں کو تنگ کرتے ہیں، جس سے جانور بے چینی کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔‘
بقول ماہرہ: ’چڑیا گھر میں جانوروں کے تحفظ اور ان کی ذہنی صحت کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، تاہم انہیں محدود جگہوں میں قید کر کے رکھنا ان کے قدرتی رویوں اور زندگی کے معیار کو متاثر کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ان کی ذہنی اور جسمانی حالت خراب ہو سکتی ہے۔ بھالو کا ایک ہی جگہ پر بار بار چہل قدمی کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ zoochosis (چڑیا گھر میں قید رہنے والے جانوروں میں ذہنی دباؤ کی کیفیت) کا شکار ہو گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس میں بے چینی اور غصہ، دائرہ میں چلنا یا گھومنا، غیر ضروری حرکات جیسے کہ خود کو کھرچنا یا چبانا، غذا کی کمی یا غیر معمولی کھانے کی عادتیں، چپ چاپ رہنا یا خود کو زخمی کرلینے جیسی علامات شامل ہیں۔
یہ حالات عموماً اس وقت پیدا ہوتے ہیں، جب جانوروں کو ان کے قدرتی ماحول سے نکال کر قید کر لیا جاتا ہے اور انہیں مناسب سرگرمی یا ذہنی چیلنج نہیں مل پاتا۔
ماہرہ کے مطابق بھالو کے ساتھ چمپینزی اور دیگر جانوروں کی حالت بھی تسلی بخش دکھائی نہیں دے رہی، اس لیے ان کا ماننا ہے کہ کراچی چڑیا گھر کو ختم کر کے اسے گارڈن کی شکل دے کر یہاں پرندوں کو رکھا جائے کیونکہ یہ جنگلی جانور قدرتی ماحول میں رہنے کے عادی ہوتے ہیں اور انہیں وہی ماحول فراہم کرنا ضروری ہے۔
اس حوالے سے چڑیا گھر انتظامیہ نے اپنا موقف دیتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’رانو نامی بھالو ہمالیہ کا نہیں بلکہ سیریا کا بھالو ہے اور کراچی کا موسم اور درجہ حرارت بھالو کے لیے موزوں ہے۔‘
انتظامیہ کے مطابق: ’جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے عملہ موجود ہے، جو روز مرہ کی بنیاد پر ان کا معائنہ کرتے ہیں اور غیر معمولی صورت حال پر فوراً اس کا سدباب کیا جاتا ہے، تاہم کے ایم سی کی جانب سے جانوروں کی خوراک کے لیے فنڈز جاری کیے جا رہے ہیں، جس سے انہیں بہتر خوراک میسر آ رہی ہے۔‘
چڑیا گھر انتظامیہ کے مطابق: ’اس وقت چڑیا گھر میں سات سو جانور موجود ہیں، جن میں سے دودھ دینے والے جانوروں کی تعداد 125 ہے، رینگنے والے جانور 134 اور پانچ سو سے زائد پرندے موجود ہیں۔ چڑیا گھر شہریوں کو سستی تفریح فراہم کر رہا ہے۔ یہاں فیملیز آتی ہیں اور چڑیا گھر کا ماحول خراب کرنے والے شہریوں کے ساتھ سختی سے نمٹا بھی جاتا ہے۔
کراچی چڑیا گھر میں اس وقت بڑے جانوروں میں افریقی شیر، چمپینزی، سفید شیر، زیتونی ببون اور براؤن بھالو موجود ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے تمام جانوروں کو دن میں ایک بار موزوں خوراک دی جاتی ہے اور گرمیوں کے پیش نظر پانی اور برف کی سلوں کا انتظام کیا گیا ہے تاکہ جانوروں کر گرمی سے محفوظ رکھا جا سکے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے موقف کے لیے میئر کراچی مرتضیٰ وہاب سے رابطے کی کوشش کی، تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔