جعفر ایکسپریس کلیئرنس آپریشن میں کسی یرغمالی کی موت نہیں ہوئی: فوج

پاکستانی فوج نے جمعے کو کہا ہے کہ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد 36 گھنٹوں میں کیے گئے کلیئرنس آپریشن کے دوران ایک بھی یرغمالی کی موت واقع نہیں ہوئی۔

پاکستانی فوج نے جمعے کو کہا ہے کہ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد 36 گھنٹوں میں کیے گئے کلیئرنس آپریشن کے دوران ایک بھی یرغمالی کی موت واقع نہیں ہوئی۔

ساتھ ہی انہوں نے حملے کے ماسٹرمائنڈز کی افغانستان میں موجودگی اور انڈیا کی جانب سے چلائے گئے پراپیگنڈا کا بھی ذکر کیا۔

فوج کے تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری اور وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے اسلام آباد میں جمعے کی سہ پہر ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں جعفر ایکسپریس پر حملے اور سکیورٹی فورسز کے ریسکیو آپریشن کے بارے میں آگاہ کیا۔

کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر 11 مارچ 2025 کو بولان پاس کےعلاقے ڈھاڈر میں علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لیبریشن آرمی (بی ایل اے) نے حملہ کر کر کے 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا، تاہم سکیورٹی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے مسافروں کو بازیاب کروا لیا اور حملہ کرنے والے تمام شدت پسندوں کو بھی مار دیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے جمعے کو پریس کانفرنس کے دوران واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’11 مارچ کو ایک بجے کے قریب دشوار گزار علاقے میں جعفر ایکسپریس کو آئی ای ڈی کے ذریعے روکا گیا۔ اس سے قبل دہشت گردوں نے ایف سی کی چوکی پر حملہ کیا اور وہاں تین جوانوں کو مار دیا۔

’بی ایل اے والے متعدد گروپس میں تھے۔ انہوں نے پہاڑوں پر بھی پوزیشن لی ہوئی تھی۔ انہوں نے ٹرین کے مسافروں کو یرغمال بنایا۔ بچوں اور عورتوں کو ٹرین میں رکھا اور باقی مسافروں کو باہر لے آئے اور مختلف جگہوں پر بٹھا لیا۔‘

بقول ڈی جی آئی ایس پی آر: ’ایک طرف یہ معاملہ چل رہا تھا، دوسری طرف بی ایل اے کی سپورٹ میں ایک انفارمیشن وار فیئر چلنا شروع ہوگئی، جسے انڈین میڈیا لیڈ کر رہا ہے اور پراپیگنڈا ویڈیوز چلا رہا تھا۔ مین سٹریم میڈیا پر اے آئی تصاویر، بی ایل اے کی دی گئی ویڈیو اور پرانی ویڈیوز چلا کر بیانیہ بنا رہے تھے کیونکہ ان کا ایک گٹھ جوڑ تھا۔‘

’انہوں نے بتایا کہ 11 تاریخ کو شام کو دہشت گردوں نے یرغمالیوں کا ایک گروپ رہا کیا، جنہیں ایک نسلی گروہ کے طور پر چھوڑا گیا۔‘

فوج کے آپریشن کی تفصیلات بتاتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 12 مارچ کو سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور ’دہشت گردوں سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا تو کچھ یرغمالیوں کو بھاگنے کا موقع مل گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کلیئرنس آپریشن کے دوران کسی ایک یرغمالی کی موت واقع نہیں ہوئی۔‘

بقول ڈی جی آئی ایس پی آر: ’دنیا بھر میں ٹرین کو یرغمال بنانے کے واقعات میں یہ سب سے کامیاب ترین آپریشن تھا، جبکہ وہ ایک دشوار گزار علاقہ تھا، خودکش بمبار بھی وہاں موجود تھے، لیکن انتہائی کامیابی سے محتاط انداز میں فورسز نے اس آپریشن کو مکمل کیا۔‘


اس حوالے سے کیا کہ کوئی مسافر ابھی بھی یرغمال ہو سکتا ہے؟ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’ہم شروع سے ٹرین کی نگرانی کر رہے تھے اور کسی بھی موقعے پر وہ (عسکریت پسند) کسی مسافر کو ساتھ پہاڑوں میں اپنے ٹھکانوں میں لے کر گئے۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ تمام مسافر یا تو ٹرین کے اندر موجود تھے یا ٹرین کے ساتھ اور وہ تین ٹولیوں میں وہاں سے نکلے۔ ایک جنہیں عسکریت پسندوں نے نسلی بنیاد پر رہا کیا، دوسرے گروہ میں 12 مارچ کو ایف سی سنائپر حملوں کے باعث کچھ لوگوں کو وہاں سے نکلنے کا موقع ملا اور تیسرا گروہ کلیئرنس آپریشن کے نتیجے میں نکلا۔

انہوں نے بتایا کہ آزاد ہونے والے یرغمالیوں میں 354 کو شناخت کر لیا گیا اور ان کا رابطہ (ان کے رشتے داروں سے) ہو گیا ہے، جن میں سے 37 زخمی ہیں جبکہ 26 یرغمالی مارے گئے، جن میں سے 18 کا تعلق پاکستان فوج اور ایف سی سے تھا جبکہ تین کا تعلق ریلویز اور دیگر اداروں سے تھا اور پانچ افراد سویلین تھے۔

’ٹرین کے علاوہ آپریشنل سطح پر بھی پانچ ایف سی اہلکار جان سے گئے۔ تین ایف سی اہلکار چیک پوسٹ پر حملے میں جان سے گئے، ایک ایف سی اہلکار 12 مارچ کی صبح جان سے گیا اور ایک ایف سی اہلکار جو کہ ٹرین کی ڈیوٹی پر مامور تھا، جان سے گئے۔‘

بقول ڈی جی آئی ایس پی آر پہلے 21 افراد کی لاشیں ٹرین میں سے ملی تھیں، جبکہ پانچ افراد فرار ہوتے ہوئے پیچھے سے ہونے والی فائرنگ کا نشانہ بنے، اس طرح بچائے گئے اور مارے جانے والے یرغمالیوں کی تعداد 380 ہوگئی۔

ٹرین کے مسافروں کی متضاد تعداد کے بارے میں وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے بتایا کہ کل 415 افراد کے ٹکٹس تھے، لیکن ہو سکتا ہے کہ کچھ نے سفر نہ کیا یا کچھ لوگ فرار ہونے کے بعد بھٹک گئے، یا اِکا دُکا لوگ دوبارہ ان (بی ایل اے) کے ہاتھ لگ گئے ہوں۔

ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو سبی کے علاقے میں ایک تھریٹ الرٹ تھا لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ مخصوص علاقے میں ٹرین پر حملہ ہوگا، لیکن حملے کے بعد دیے گئے رسپانس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے فعال کردار ادا کیا۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ’یہ دہشت گردی کا ایک اور واقعہ ہے، جس کا تعلق ہمارے پڑوسی ملک افغانستان میں ملتا ہے، یہ ایک عمل کا حصہ ہے، جو جاری ہے، وہاں سے جو تشکیلیں آتی ہیں، جو خودکش بمبار یہاں ہیں، ان میں افغان شامل ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے ہونے والی کارروائیوں کے ماسٹر مائنڈ ہماری شمالی سرحد پر ہیں۔

’افغانستان سے ہر قسم کی دہشت گردی کو سپورٹ ملتی ہے۔ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد وہاں نائٹ وژن ڈیوائسز موجود ہیں، جو ان دہشت گردوں کو دستیاب ہیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’ریاست پاکستان پہلی بار نارکوٹکس، سمگلنگ، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں اور ایرانی پیٹرول سمیت اس غیرقانونی سپیکٹرم کے خلاف بات کر رہی ہے اور یہ مافیا نہیں چاہتا کہ وہ جو اتنے عرصے سے یہ سب کر رہے ہیں، یہ کام ختم ہو، لہذا وہ ان واقعات کو سپورٹ کرتے ہیں۔‘

آئی ایس پی آر سربراہ نے کہا کہ ’بلوچستان میں جو واقعات ہو رہے ہیں، اس کا مرکزی سپانسر ہمارا مشرقی پڑوسی (انڈیا) ہے۔‘

اس موقعے پر بلوچستان سے پکڑے جانے والے انڈین جاسوس کلبھوشن یادو کا بیان بھی چلایا گیا۔

پریس کانفرنس میں شریک وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے جعفر ایکسپریس پر حملے کی مذمت کرنے پر عالمی برادری کا شکریہ ادا کیا۔

کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’ان کو بلوچ نہ کہا جائے، بلوچیت کے نام پر جو دہشت گردی کرتے ہیں، ان کا بلوچوں سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔ اس لڑائی کا نہ بلوچیت سے تعلق ہے، نہ حقوق سے۔۔ان کو دہشت گرد کے طور پر ٹریٹ کیا جائے گا۔‘

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات حقوق کی جنگ نہیں بلکہ دہشت گردی ہے۔ ’یہ نارض بلوچ نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں۔‘

سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ بلوچ گروپ خود کو ’لبرل‘ کہتے ہیں جبکہ ان کی ’نانی‘ انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں شدت پسندوں کو رعایت دہنے کی وجہ سے بھی حالات پیدا ہوئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان