پاکستان میں بڑا المیہ یہ ہے کہ سیاسی تفریق اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ لوگ حکومتی بیانیے پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور کسی قسم کی غلط انفارمیشن کو پھیلانے سے اجتناب نہیں کرتے، اس طرح غلط خبر بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔
لوگ غلط خبر کو صرف اس لیے نہیں پھیلاتے کہ وہ اس پر یقین کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ خبر غلط ہے لیکن وہ اپنی سیاسی وابستگی کا اشارہ دینے کے لیے اور مخالفین کو نقصان پہنچانے کے لیے پھیلاتے ہیں۔
مس انفارمیشن یا غلط خبر سوشل میڈیا پر مختلف طریقے اور بہت رفتار سے پھیلتی ہے۔ کوئی بھی پوسٹ جس کو بہت سے لوگوں نے لائیک کیا ہو یا شیئر کیا ہو، اسے لوگ سچ مان کر آگے شیئر کر دیتے ہیں اور اس طرح یہ معلومات بہت کم وقت میں بہت سے لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ ایسی خبریں اس وقت بہت زیادہ نقصان دہ ہوتی ہیں جب کوئی بڑا واقعہ رونما ہوا ہو جیسے کہ حال ہی میں بلوچستان کے علاقے میں ٹرین پر حملہ اور مسافروں کو یرغمال بنایا جانا۔
سوشل میڈیا پر ایسی کمیونٹیز یا گروپس بنے ہوئے ہیں جو ہم خیال لوگوں کے ہوتے ہیں اور ان کو Echo Chambers کہا جاتا ہے۔ ان چیمبرز کی وجہ سے غلط معلومات کا پھیلاؤ ہوتا ہے اور اس کی زد میں وہ لوگ بھی آتے ہیں جو ان کے ہم خیال نہ بھی ہوں، لیکن وہ ان معلومات کو درست سمجھ کر آگے شیئر کر دیتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے خاموشی اتنی طویل تھی کہ سوشل میڈیا پر غلط معلومات بہت زیادہ اور اتنی تیزی سے پھیلیں کہ اب تک حکومتی بیانیہ اس غلط معلومات کے نیچے دبا ہوا ہے۔ حکومت کو کرائسس کمیونیکیشن کا طریقہ دریافت کرنا ہو گا، جس میں جلد سے جلد صحیح معلومات فراہم کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا ہمارے لیے آکسیجن، تاکہ غلط معلومات کو پھیلنے سے روکا جائے۔
سوشل میڈیا ٹیمیں تو شاید ہر وزارت ہی میں بیٹھی ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان کا صحیح استعمال کون کرائے گا۔ اگر تواتر سے تھوڑی تھوڑی درست معلومات حکومت کے سوشل میڈیا سے جاری ہوتی رہیں تو غلط انفارمیشن کو بہت حد تک پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا نہ کرنے کے باعث درست معلومات تو جیسے آ ہی نہیں رہی تھیں۔
حکومت کو بتایا جانا چاہیے کہ سوشل میڈیا پر ایسے افراد بھی موجود ہیں جو ان تک پہنچنے والی خبر کی تصدیق کرنے اور سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے اور ایسے ہی آگے شیئر کر دیتے ہیں۔
2020 میں ایک سٹڈی کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ لوگ غلط معلومات پر یقین نہ کریں اگر ان کے پاس وقت ہو اور وہ ذہنی طور پر خبر کی صداقت کو جانچنے کے لیے تیار ہوں۔
لوگ فیک نیوز پر یقین صرف اس لیے کر لیتے ہیں کہ سوشل میڈیا کو سکرول کرتے وقت ان کی نظر سے یہ خبر گزرتی ہے اور ان کے پاس وقت ہوتا ہے اور نہ ہی وہ ذہنی طور پر خبر کے غلط یا صحیح ہونے کی تصدیق کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح اگر ایک ہی خبر ان کی نظروں کے سامنے سے بار بار گزرے گی تو وہ غلط خبر کو بھی صحیح سمجھ بیٹھیں گے۔ وہ اس خبر کے پس منظر کو نہیں سمجھیں گے اور نہ ہی اس کے سیاق و سباق کو۔ وہ بس اس لیے یقین کر لیں گے کہ یہ خبر ان کی ٹائم لائن پر بار بار آ چکی ہے۔
لیکن فیک نیوز پر یقین کر لینے کے پیچھے ایک اور وجہ بھی ہوتی ہے، کچھ غلط خبروں میں درست خبروں سے بھی زیادہ نیا پن (Novelty) ہوتا ہے اور ایسی خبروں سے وہ جذبات ابھرتے ہیں جیسے خوف، نفرت اور حیرت، ان کی وجہ سے یہ نئی معلومات قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتی ہے اور پڑھنے یا دیکھنے والوں کو ایسا لگتا ہے جیسے وہ کچھ نیا سیکھ رہے ہیں، پھر وہ اسے مزید پھیلاتے ہیں تاکہ دیگر افراد بھی اس نئی بات کو جان لیں۔
سوشل میڈیا پر فیک نیوز کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قانون تو بنا دیا گیا ہے جس کو صحافی برادری سمیت بہت سے لوگ متنازع قرار دے رہے ہیں، لیکن قانون بنانا ہی واحد مقصد نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جن کو پیکا تو دور کی بات عام قوانین کے بارے میں بھی معلومات نہیں ہے۔ حکومت کو احتیاط سے کام لیتے ہوئے فیک نیوز کا مقابلہ سوشل میڈیا پر کرنے کی ضرورت ہے اور ہر وزارت کو اپنی اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔
اگر سیاسی مخالفین کے خلاف سوشل میڈیا ٹیم فعال ہو سکتی ہے تو فیک نیوز کے پھیلاؤ کو روکنے اور آگاہی کے لیے کیوں نہیں؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔