خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے علاقے ارمڑ میں پولیس کے مطابق لشکر اسلام تنظیم کے بانی اور مذہبی شخصیت مفتی منیر شاکر ہفتے کو بم دھماکے میں جان سے چلے گئے۔
بم دھماکے میں زخمی ہونے کے بعد مفتی منیر شاکر کو پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف کے مطابق دوران علاج وہ چل بسے۔
بیرسٹر سیف کے مطابق: ’علمائے کرام پر حملے انتہائی تشویش ناک اور قابل مذمت ہیں۔ معصوم جانوں کے قاتل انسانیت کے دشمن ہیں۔‘
مفتی منیر شاکر ضلع خیبر میں 2001 سے لے کر 2011 تک شدت پسندی کے دوران ایک اہم کردار سمجھے جاتے تھے، لیکن اس کے بعد وہ منظر عام سے غائب ہوگئے۔
ضلع کرم کے گاؤں ماخی زئی میں 1969 میں پیدا ہونے والے مفتی منیر شاکر مذہبی تعلیم کراچی سے حاصل کی اور جامعہ بنوریہ میں زیر تعلیم رہے۔ ارمڑ میں جامع مسجد ندائے قرآن کے نام سے ان کا مدرسہ تھا۔
سینٹر ایشیا نامی جریدے میں شائع ڈاکٹر یوسف علی اور اعجاز خان کے تحقیقی مقالے کے مطابق مفتی منیر شاکر کو ضلع خیبر کے علاقے باڑہ میں 2003 میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سربراہ حاجی نامدار نے متعارف کروایا۔
باڑہ میں وہ حاجی نامدار کے نجی ریڈیو سٹیشن سے خطبے دیتے تھے اور اس کے بعد انہوں نے ضلع خیبر میں حرکت الاسلام نامی تنظیم کی بنیاد رکھی اور بعدازاں لشکر اسلام کی بنیاد رکھی۔
تحقیقی مقالے کے مطابق حاجی نامدار اور مفتی منیر شاکر کے مابین اختلافات پیدا ہوگئے اور 2004 میں انہیں ضلع بدر کرنے کا کہا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد باڑہ سے وہ ملک دین خیل کے علاقے میں منتقل ہو گئے۔ وہاں پر منگل باغ ان کے حمایتیوں میں شامل ہو گئے اور ایک نئے ریڈیو سٹیشن کی بنیاد رکھی اور بعد میں لشکر اسلام تنظیم کی بنیاد رکھی اور ان کے سربراہ بن گئے۔
منگل باغ 2021 میں افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں اس وقت کے افغان حکام کے مطابق بارودی سرنگ کے دھماکے میں دو ساتھیوں سمیت مارے گئے تھے۔
شدت پسندی پر تحقیق کرنے والے ’دی لانگ وار‘ نامی جریدے کے مقالے میں کہا گیا ہے کہ لشکر اسلام کے سربراہ منگل باغ کی سوچ بدلتی رہی کیونکہ ایک طرف وہ ’افغان جہاد‘ میں سوویت یونین کے خلاف لڑے تھے جبکہ دوسری جانب اسی جنگ سے واپسی کے بعد وہ عوامی نیشنل پارٹی کا حصہ بن گئے اور اسی پارٹی کا اثر و رسوخ استعمال کرکے 2001 میں وہ باڑہ ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوگئے تھے۔
’منگل باغ کے مذہبی خیالات پہلی بار اس وقت شدت سے سامنے آئے جب انہوں نے تبلیغی جماعت کے اجلاسوں میں شرکت اور تبلیغ پر جانا شروع کیا۔‘
مفتی شاکر ضلع خیبر میں ایف ایم ریڈیو پر اسی علاقے میں رہنے والے ایک اور شخص پیر سیف الرحمان، جو بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے، کی کھلے عام مخالفت کرتے تھے۔
سیف الرحمان علاقے میں انصار الاسلام کی قیادت بھی کر چکے تھے۔
مفتی شاکر سیف الرحمان سے بہت بعد میں ضلع خیبر آئے تھے لیکن وہاں پر اپنا اثر و رسوخ بہت جلد قائم کیا اور حاجی نامدار کی سربراہی میں ’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ کے نام سے تنظیم کی بنیاد رکھی جو لوگوں کو ریاستی پالیسیوں کے خلاف اکساتی تھی۔
مقالے میں تفصیل سے درج ہے کہ کس طرح مفتی شاکر اور سیف الرحمان کے مابین اختلاف شروع ہو گیا کیونکہ دونوں مختلف مکاتیب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ 2005 میں علاقے کے لوگوں کی جانب سے مفتی شاکر اور سیف الرحمان کو علاقہ بدر کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور تب ہی ان دونوں کے چاہنے والوں کے مابین جنگ کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ یوں دونوں تنظیموں کے مابین جھڑپ ہوئی جس میں کم از کم 21 افراد جان سے گئے اور مفتی شاکر اور سیف دونوں روپوش ہوگئے۔
مفتی منیر شاکر اور سیف الرحمان کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 2007 میں گرفتار کیا۔
مفتی شاکر کے بعد منگل باغ کو لشکر اسلام کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ لشکر اسلام اور ان کی مخالف تنظیم انصار اسلام کے مابین بعد میں شدید جھڑپیں ہوئیں، جن میں مقالے کے مطابق 500 کے قریب لوگ جان سے گئے، جس کے نتیجے میں حکومت نے 2006 میں خیبر میں فوجی بھیجے۔
مفتی منیر شاکر نے 2007 میں گرفتاری اور بعد میں رہائی کے بعد پشاور کے شیخ محمدی علاقے میں نیا ریڈیو سٹیشن بنایا لیکن تحقیقی مقالے کے مطابق اس کا اثر و رسوخ اتنا پھر نہیں رہا۔
گذشتہ کچھ عرصے سے مفتی منیر شاکر دوبارہ منظر عام پر آئے تھے اور مختلف مسائل پر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے مذہبی پرچار، بیانات اور تقاریر جاری کرتے تھے۔
ان تقاریر کو بعض لوگ متنازع سمجھتے تھے کیونکہ زیادہ تر وہ مختلف مکاتیب فکر میں شرعی مسائل میں اختلافی سوچ رکھتے تھے۔
منگل باغ کے دور میں کیے گئے آپریشن کی کوریج کرنے والے ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے صحافی اسلام گل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مفتی منیر شاکر، منگل باغ اور انصار الاسلام کی جنگ فرقہ وارانہ باتوں پر مشتمل تھی اور وہ اپنے بنائے ہوئے ریڈیو سٹیشن سے احکامات اور پیغامات نشر کرتے تھے۔
اسلام گل کے مطابق منگل باغ کے ریڈیو سٹیشن کو عوام میں بھی اہم سمجھا جاتا تھا، ہر کوئی اس کو سنتا تھا کہ کہیں ان کے خلاف کوئی حکم تو نہیں دیا گیا۔ اس کے علاوہ منگل باغ کے حکم ناموں سے باخبر رہنے کے لیے بھی لوگ ان کے سٹیشن کو سنتے تھے تاکہ بعد میں سزا نہ سہنی پڑے۔
اسلام گل نے بتایا کہ مفتی منیر شاکر نے لشکر اسلام کی بنیاد تو رکھی تھی لیکن اس وقت مختلف سزائیں وغیرہ مقرر تھیں لیکن تشدد کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا اور وہ علاقے سے نکل گئے۔
انہوں نے بتایا کہ مفتی شاکر اس وقت پر تشدد کارروائیوں سے خود کو علیحدہ سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کا تشدد میں کوئی کردار نہیں ہے۔
اسلام گل کے مطابق: ’2009 میں خیبر میں حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے اور اسی وجہ سے پاکستان فوج نے ’آپریشن تھنڈر سٹورم‘ کے نام سے آپریشن کا آغاز کردیا اور علاقے میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔‘
فوجی آپریشن کے بعد منگل باغ افغانستان فرار ہوگئے، جہاں سے 2016 میں ان کی مارے جانے کی اطلاع آئی تھی لیکن 2021 میں بارودی سرنگ دھماکے میں ان کی موت کی تصدیق ہوئی۔