تعریف کے باوجود امریکہ پاکستان تعلقات کا مستقبل غیریقینی

امریکی انخلا کے بعد انسدادِ بغاوت کی حکمتِ عملی کے لیے پاکستان کی سرزمین کا استعمال ملک کو ایک اور تنازعے کی طرف دھکیل سکتا ہے، جو کسی بھی صورت پاکستان کے لیے سودمند نہیں ہو گا۔

چار مارچ 2025 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن ڈی سی میں کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں، امریکی ایوان کے سپیکر مائیک جانسن اور نائب صدر جے ڈی وینس عقب میں موجود ہیں (مک نیمی / اے ایف پی)

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس سے حالیہ خطاب میں پاکستان کی تعریف کی کہ اس نے امریکہ کو کابل ہوائی اڈے پر اگست 2021 کے حملے کے ماسٹر مائنڈ کو پکڑنے میں مدد دی، جس میں کئی امریکی فوجی مارے گئے تھے، یہ اتنی بڑی خبر تھی کہ امریکی صدر نے خود اس کا اعلان کیا۔

امریکی صدر جو اکثر غیر متوقع بیانات دینے کے لیے مشہور ہیں، کے ان الفاظ نے اسلام آباد میں کچھ امید جگائی کہ واشنگٹن کے ساتھ اس کے کشیدہ تعلقات دوبارہ بحال ہو سکتے ہیں۔ تقریباً چار سال قبل جب امریکہ نے افغانستان سے انخلا کیا تو ان دونوں سابق اتحادیوں کے تعلقات سرد پڑ گئے۔

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ٹرمپ کے شکریے کے الفاظ اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کی بحالی کا اشارہ ہیں۔ آخرکار یہ تصور بھی محال تھا اور وہ بھی صرف چند روز پہلے تک، کہ صدر ٹرمپ پاکستان کی کھلے عام تعریف کریں گے۔

درحقیقت اسلام آباد میں کچھ بے چینی پائی جا رہی تھی کہ امریکی صدر کی جانب سے سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کے مطالبے کے لیے کوئی کال آ سکتی ہے۔ مگر اس کے برعکس پاکستانی حکومت کے لیے کھلے عام ستائش کا پیغام آیا۔

دہشت گردی کے خلاف تعاون کی مجموعی کامیابی سے پیدا ہونے والی امیدوں کے باوجود، پاک امریکہ تعلقات کا مستقبل اب بھی غیر یقینی ہے۔ ٹرمپ کی ’سب سے پہلے امریکہ‘ پالیسی اور بدلتے ہوئے جیو سٹریٹیجک منظرنامے کے باعث، اس وقت واشنگٹن کی ترجیحات میں اسلام آباد کے ساتھ تعلقات کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے۔

دہشت گردی کے خلاف بڑھتا ہوا تعاون یقیناً دونوں ممالک کے درمیان جمی برف پگھلانے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ تعلقات میں کشیدگی کے باوجود، سکیورٹی ایجنسیوں کے درمیان روابط بدستور قائم ہیں۔ افغانستان میں سرگرم بین الاقوامی شدت پسند گروہوں کی کارروائیاں دونوں ممالک کے لیے ایک بڑی تشویش کا باعث ہیں۔

ٹرمپ کی تعریف کے فوراً بعد، ان کے اہم کابینہ ارکان، بشمول قومی سلامتی کے امریکی مشیر، وزیر دفاع اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر، مختلف امریکی ٹی وی چینلز پر نمودار ہوئے اور پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا۔ پاکستان کے تعاون کا اثر اس قدر نمایاں تھا کہ امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے تین سال کے طویل وقفے کے بعد پاکستانی وزیر خارجہ سے بات کی۔ ماحول یکسر بدل گیا۔

لیکن ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستانی شہریوں پر ممکنہ سفری پابندی کی خبروں نے دونوں ممالک کے تعلقات کی بحالی کے امکانات کو متاثر کیا۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے لیے یہ سفری پابندی حکومت کی جانب سے سکیورٹی اور ویزا جانچ پڑتال کے خدشات کے جائزے کی بنیاد پر لگائی جا رہی ہے اور اگلے ہفتے تک نافذ ہو سکتی ہے۔

ایسا کوئی بھی اقدام آگے بڑھنے میں مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ اس سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی خلیج مزید گہری ہو جائے گی جس کے نتیجے میں پاکستان کے لیے واشنگٹن کے ساتھ تعاون برقرار رکھنا مزید مشکل ہو جائے گا۔

2021 میں افغانستان میں امریکہ کی دو دہائیوں پر محیط جنگ کے خاتمے کے ساتھ، نائن الیون کے بعد کے پاک امریکہ تعلقات ایک مکمل دائرہ مکمل کر چکے ہیں۔ امریکی افواج کے انخلا نے ناگزیر طور پر خطے کی جغرافیائی سیاست پر گہرا اثر ڈالا۔

تاریخی طور پر واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات ہمیشہ ایک محدود دائرے میں رہے ہیں، جو یا تو قلیل مدتی سکیورٹی مفادات کے تحت طے پاتے رہے یا کسی مشترکہ چیلنج سے نمٹنے کی مجبوری کے تحت۔ اب اس طرزِ تعلق سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ممالک کے تعلقات کو نئے انداز میں استوار کیا جا سکے۔

امریکہ کے ساتھ تعلقات کو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان کے معاملات سے آگے لے جانے کی ضرورت ہے، اگرچہ یہ معاملات بدستور اہم رہیں گے۔ خطے کی بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاست نے طاقتوں کے ایک نئے توازن کو جنم دیا ہے۔

امریکہ اور انڈیا کے بڑھتے ہوئے سٹریٹیجک تعلقات اور دوسری طرف چین اور پاکستان کے مضبوط ہوتے اتحاد، اس نئی جغرافیائی سیاست کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے سٹریٹیجک روابط اور واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان شدت اختیار کرتی کشیدگی بھی مستقبل کے پاک امریکہ تعلقات پر اثر ڈال سکتی ہے۔

پاکستان کے لیے امریکہ ایک اہم تجارتی اور اقتصادی شراکت دار ہے۔ امریکہ پاکستان کی برآمدات کے لیے سب سے بڑی منڈی ہے اور ترسیلاتِ زر کا ایک بڑا ذریعہ بھی۔ گزشتہ دو دہائیوں میں امریکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے بڑے ممالک میں شامل رہا ہے۔

پاکستان میں ٹیکنالوجی کا شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے، جسے امریکی تعاون سے مزید فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو اقتصادی استحکام حاصل کرنے کے لیے بھی امریکی مدد کی ضرورت ہے۔

مگر تعلقات کو ازسرِ نو استوار کرنا یقیناً آسان نہیں ہوگا۔ عدم اعتماد کے ماحول میں تو محض لین دین پر مبنی تعلقات کو برقرار رکھنا بھی مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔

برف پگھلانے کے لیے دونوں ممالک کو اعلیٰ سطح پر سیاسی قیادت کے درمیان بامعنی مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے تاکہ ایک نئے تعلقاتی فریم ورک کی بنیاد رکھی جا سکے۔

یقیناً، اسلام آباد کو افغانستان میں امن کے قیام کے لیے امریکہ سے تعاون کرنا چاہیے، مگر پاکستان کے مفاد میں نہیں کہ وہ خطے میں کسی نئے امریکی ’کھیل‘ کا حصہ بنے۔

امریکی انخلا کے بعد انسدادِ بغاوت کی حکمتِ عملی کے لیے پاکستان کی سرزمین کا استعمال ملک کو ایک اور تنازعے کی طرف دھکیل سکتا ہے، جو کسی بھی صورت پاکستان کے لیے سودمند نہیں ہوگا۔

ہمیں یقیناً امریکہ کے ساتھ وسیع البنیاد تعلقات قائم رکھنے کی ضرورت ہے، مگر کسی نئے امریکی ’کھیل‘ میں خود کو شامل کر لینا دانش مندی نہیں ہوگی۔

امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ازسرِ نو استوار کرنا ہرگز آسان نہیں ہوگا۔ پاکستان کو مذاکرات کے دوران اپنے مفادات اور ترجیحات کے بارے میں مکمل طور پر واضح ہونا چاہیے تاکہ تعلقات ایسی شرائط پر طے ہوں جو ملک کے لیے سودمند ثابت ہوں۔


زاہد حسین ایک ایوارڈ یافتہ صحافی اور مصنف ہیں۔ وہ ووڈرو ولسن سینٹر کے سابق سکالر اور یونیورسٹی آف کیمبرج کے وولفسن کالج اور واشنگٹن ڈی سی کے سٹمسن سینٹر میں وزیٹنگ فیلو رہ چکے ہیں۔

وہ ’فرنٹ لائن پاکستان: دا سٹرگل ود ملی ٹنٹ اسلام اینڈ دا سکورپیئن ٹیل: دا ری لینٹ لیس رائز آف اسلامک ملی ٹنٹس ان پاکستان کے مصنف ہیں۔

فرنٹ لائن پاکستان کو وال اسٹریٹ جرنل نے 2007 میں سال کی بہترین کتاب قرار دیا۔

ایکس: @hidhussain

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان