وزارت دفاع کو انسداد فیک نیوز کے لیے فنڈز ’ٹرانسفارمیشن‘ کا حصہ ہیں: وزیر خزانہ

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے تصدیق کی ہے کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے جعلی خبروں کی روک تھام کی غرض سے وزارت دفاع کے لیے تقریباً دو ارب روپے کے فنڈز کی منظوری دی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب سات جنوری 2025 کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں (پی ٹی وی سکرین گریب)

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے ریاستی اداروں کے خلاف جعلی خبروں (فیک نیوز) کے انسداد کی غرض سے وزارت دفاع کو تقریباً دو ارب روپے کے اضافی فنڈز کی منظوری کی تصدیق کرتے ہوئے اسے ’ٹرانسفارمیشن کا حصہ‘ قرار دیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے منگل کو اسلام آباد میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے ریاستی اداروں کے خلاف فیک نیوز کی روک تھام کے لیے تقریباً دو ارب روپے کے فنڈز کی منظوری سے متعلق سوال کیا، جس کی انہوں نے تصدیق کی۔

وفاقی وزیر خزانہ سے مزید دریافت کیا گیا کہ ’حکومت فیک نیوز سے متعلق اقدامات پیکا قوانین کے ذریعے لے چکی ہے تو جب دو وزارتیں پہلے ہی اس حوالے سے کام کر رہی ہیں تو تیسری کو فیک نیوز کے روک تھام سے متعلق فنڈز کی منظوری کی کیا وجہ ہے؟‘ اس پر پر وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ’ٹرانسفارمیشن کے تحت ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے اور اس کے کئی پہلو ہیں۔‘

تاہم وفاقی وزیر خزانہ نے ’ٹرانسفارمیشن‘ سے متعلق سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔

وفاقی وزارت خزانہ نے پیر کو ایک اعلامیہ جاری کیا جس کے مطابق وزارت دفاع کو 1.945 ارب روپے کی ٹیکنیکل سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری دی گئی ہے۔ تاہم اعلامیے میں واضح نہیں کیا گیا کہ تقریبا دو ارب روپے کی منظوری کا مقصد کیا ہے۔

اس معاملے سے متعلق وزارت خزانہ کے ایک عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے وزارت دفاع کو ریاستی اداروں کے خلاف فیک نیوز روکنے کے لیے تقریباً دو ارب روپے کے اضافی فنڈز کی منظوری دی ہے۔

عہدیدار نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’وزارت دفاع کی جانب سے فنڈز کی منظوری کا مطالبہ کمیٹی کے سامنے آیا جسے اس نے منظور کر لیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ’یہ فنڈ ٹیکنیکل سپلیمنٹری گرانٹ کے تحت ہیں۔ وزارت دفاع کو سالانہ بجٹ میں ملنے والی رقوم مختلف مطالبات کے تحت ملتی ہیں۔‘

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’کمیٹی نے جو منظوری دی ہے وہ دراصل وزارت دفاع کو پہلے سے ملے ہوئے بجٹ کے اندر کچھ رقم کی ری ایلوکیشن کی گئی ہے۔ یہ کوئی نئے پیسے منظور نہیں ہوئے۔‘

غلط معلومات کے انسداد کے لیے حکومت پاکستان نے پچھلے کچھ عرصے میں متعدد اقدامات لیے ہیں۔

گذشتہ مہینے پیکا ایکٹ ترمیمی بل کا مسودہ سامنے آیا تھا، جس کے مطابق فیک نیوز دینے والے کو پانچ سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا یا دونوں ہوں سکتے ہیں۔

وفاقی حکومت کا مؤقف ہے کہ ’یہ قانون ان افراد کو جوابدہ بنائے گا، جو جان بوجھ کر دوسروں کو نقصان پہنچانے، خوف یا معاشرتی بدامنی پھیلانے یا قومی مفادات کو نقصان پہنچانے والی غلط معلومات پھیلاتے ہیں۔‘

وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے مرتب کیا گیا یہ ترمیمی بل ابھی پارلیمان میں پیش کیا جانا ہے۔

پیکا ایکٹ ترمیمی بل کے نافذالعمل ہونے کے بعد وفاقی حکومت ’ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کرے گی۔ 

اس اتھارٹی کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سے اسلام کی شان اور اسلامی تعلیمات اور نظریہ پاکستان کے خلاف مواد ہٹانے یا بلاک کرنے کے لیے ہدایات جاری کرنے کا اختیار حاصل ہو گا۔

مجوزہ بل کے مطابق ’اگر آن لائن مواد افراد، عوام، حکومتی عہدے داروں بشمول قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مجبور کرنے، ڈرانے یا خوف زدہ کرنے کے مقصد سے عوام کو قانون کو ہاتھ میں لینے کے لیے اکساتا ہے یا اس کا امکان ہے تو اسے ہٹایا یا بلاک کیا جائے گا۔‘

اسامہ خلجی ڈیجیٹل حقوق اور انٹرنیٹ پر کام کرنے والے ادارے ’بولو بھی‘ کے ڈائیریکٹر ہیں۔ انہوں نے اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وزارت دفاع کا غلط معلومات کا مقابلہ کرنے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔۔۔اور وزارت اطلاعات کو مسائل پر حکومت کا نقطہ نظر فراہم کرنے دینا چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست