حکومت پاکستان کافی دیر سے کوشش کر رہی تھی کہ وہ ڈیجیٹل ٹرانزیکشن کو آسان بنانے کے بین الاقوامی سسٹم کو پاکستان لا سکے لیکن کامیابی نہیں مل رہی تھی۔
اب امید کی کرن نظر آنے لگی ہے اور پہلا کامیاب قدم اٹھا لیا گیا ہے۔ پاکستان میں گوگل والٹ لانچ کر دیا گیا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گوگل والٹ کیا ہے اور اس کے لانچ کرنے سے کیا پاکستانی معیشت کو ڈیجیٹل کرنے میں مدد مل سکے گی؟ انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے حقائق جاننے کی کوشش کی ہے۔
بلال منیر سوشل میڈیا انفلوئنسر ہیں۔ ڈیجیٹل اور ٹیکنالوجی موضوعات پر پاکستان میں سب سے زیادہ ویڈیوز بناتے ہیں۔
انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گوگل والٹ ایک ڈیجیٹل ایپلی کیشن ہے جو ڈیجیٹل ڈیٹا کو محفوظ رکھتی ہے اور ڈیجیٹل ڈیٹا کے استعمال سے روزمرہ کے کام آسان بنا دیتی ہے۔
’اسے مئی 2022 میں لانچ کیا گیا۔ یہ ایک طرح کا پرس ہے جس میں آپ روزمرہ ضرورت کی چیزیں ڈیجیٹل فارم میں رکھ سکتے ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ استعمال ڈیجیٹل ادائیگیوں کو آسان بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس میں ایزی پیسہ، جاز کیش اور دیگر بینکوں کے ڈیجیٹل کارڈز پروگرام ہوتے ہیں۔
’اس کے علاوہ ڈیجیٹل ٹکٹس، ڈیجیٹل پاسسز، ڈیجیٹل کیز، ڈیجیٹل کارڈز اور ڈیجیٹل آئی ڈیز کو بھی پروگرام کیا جاتا ہے۔ گوگل اس کے ایکسٹرا چارجز نہیں لے گا۔ یہ سہولت بالکل مفت ہے۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو اس کا سب سے زیادہ استعمال ڈیجیٹل ادائیگیوں میں ہونے کے امکانات ہیں۔ گوگل والٹ تقریباً تمام بڑے پاکستانی بینکوں کے ساتھ منسلک ہے اور جس بینک سے چاہیں بآسانی ادائیگی کی جا سکتی ہے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’گوگل والٹ سے بینک کارڈز کی چوری ہونے کا خطرہ نہیں رہتا۔ لیکن موبائل کو پہلے سے زیادہ محفوظ رکھنا پڑتا ہے کیونکہ جس کے پاس موبائل ہو گا وہ بآسانی گوگل والٹ سے خرچہ کر سکتا ہے۔ گوگل والٹ کا متبادل ایزی پیسہ یا جاز کیش نہیں ہے۔
’ایزی پیسہ ایک منی بینک ہے جبکہ گوگل والٹ ایک ڈیجیٹل سٹوریج ہے۔ گوگل والٹ کا متبادل ایپل پے اور سیم سنگ پے ہے، جو دونوں ہی پاکستان میں نہیں ہیں۔ آئی فون رکھنے والے گوگل والٹ استعمال نہیں کر سکتے۔ یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ گوگل والٹ سے بین الاقوامی ادائیگیاں آسانی سے کی جا سکتی ہیں۔ گوگل والٹ سے بین الاقوامی ادائیگی اسی صورت میں ہو سکتی ہے اگر بینک کارڈز میں مطلوبہ سہولت موجود ہو۔
’اس کے علاوہ گوگل پے اور گوگل والٹ میں بھی فرق ہے۔ گوگل پے ایک طرح کا منی بینک ہے جبکہ گوگل والٹ ایک سٹوریج پلیٹ فارم ہے۔ پاکستان میں ابھی تک گوگل پے متعارف نہیں ہو سکا ہے۔ گوگل والٹ کے پاکستان میں آنے کے بعد ادائیگیوں کے پے پال جیسے بڑے پلیٹ فارمز بھی پاکستان آ سکتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’پاکستان اور انڈیا میں گوگل والٹ جیسا اپنا ایک بھی پلیٹ فارم نہیں ہے۔ انڈیا میں پے ٹی ایم ڈیجیٹل ادائیگی کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے، جس کے ساتھ تقریباً 34 کروڑ انڈین رجسٹرڈ ہیں۔ دوسرے نمبر پر فون پے ہے جس پر تقریباً 25 کروڑ انڈین رجسٹرڈ ہیں۔ لیکن یہ دونوں والٹ نہیں ہیں۔ ان میں ٹکٹس، آئی ڈیز وغیرہ سٹور نہیں کیے جا سکتے، صرف رقم کی ادائیگی کی جا سکتی ہے۔‘
سابق ڈائریکٹر ٹیلی نار خرم راحت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان میں پہلے بھی ادائیگیوں کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کام کر رہے ہیں، جن میں ایزی پیسہ اور جاز کیش سرِفہرست ہیں۔ ایزی پیسہ چائنیز کمپنی علی بابا اور علی پے کا منصوبہ ہے۔ پاکستان میں تقریباً پچاس ملین سے زیادہ رجسٹرڈ کسٹمرز ہیں اور اب یہ پاکستان کا پہلا ڈیجیٹل ریٹیل بینک بھی بن گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جاز کیش کے تقریباً گیارہ ملین سے زیادہ رجسٹرڈ کسٹمرز ہیں۔ یہ پلیٹ فارمز گوگل والٹ سے مختلف ہیں۔ اس سے معیشت ڈیجیٹل نہیں ہو گی لیکن گوگل والٹ جاز کیش اور ایزی پیسہ سے ادائیگیوں کو مزید آسان بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔ ابھی تک ایزی پیسہ گوگل والٹ کے ساتھ منسلک نہیں ہو سکا ہے۔ ممکن ہے کہ اگلے مرحلے میں ایزی پیسہ بھی جاز والٹ میں شامل ہو جائے۔‘
سابق صدر پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن محسن ندیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان ایک کیش اکانومی ہے۔ تقریباً 75 فیصد سے زیادہ ٹرانزیکشنز کیش پر کی جاتی ہیں اور اکانومی ڈاکومنٹ نہیں ہو پا رہی، جس کی وجہ سے تنخواہ دار طبقہ ایکسپورٹرز سے زیادہ ٹیکس ادا کر رہا ہے۔
’ٹیکس اس وقت اکٹھا ہو گا جب معیشت ڈیجیٹل ہو گی اور معیشت اس وقت ڈیجیٹل ہو گی جب عام آدمی کو ڈیجیٹل ٹرانزیکشن میں آسانیاں دی جائیں گی اور انھیں ایف بی آر سے جوڑا جائے گا۔ ایزی پیسہ یا جاز کیش سے ادائیگیوں سے ابھی تک معیشت کو ٹیکس اکٹھا کرنے میں فائدہ نہیں ہو سکا ہے کیونکہ ایف بی آر سے اس طرح لنک نہیں ہیں جس طرح بینک اکاؤنٹس لنک ہیں۔ ڈیجیٹل ادائیگیوں کے پلیٹ فارمز کا فائدہ ملک کو اسی وقت ہو سکتا ہے جب یہ ٹیکس چوری کا سراغ لگانے میں مددگار ہو۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’چین اور انڈیا میں ڈیجیٹل ادائیگی کے تمام پلیٹ فارمز ٹیکس اداروں سے جڑے ہیں۔ کسی انفارمیشن کے لیے وہ کسٹمر سے ڈیٹا نہیں منگواتے بلکہ سسٹم خود بخود ٹیکس اداروں کو انفارمیشن پہنچا دیتا ہے۔ چین میں تقریباً 78 فیصد ادائیگیاں ڈیجیٹل ہوتی ہیں۔
’انڈیا 2028 تک ایک ٹریلین ڈالرز کی ڈیجیٹل اکانومی بننے جا رہا ہے۔ پاکستان میں اول تو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اکاؤنٹس سے بڑی ٹرانزیکشنز نہیں کی جا سکتیں اور دوسرا یہ کہ انھیں ثبوت کے طور پر ایف بی آر میں اس طرح پیش نہیں کیا جاتا جس طرح بینک سٹیٹمنٹس کو پیش کیا جاتا ہے۔ ابھی تک 50 لاکھ لوگوں کے اثاثوں، بینک اسٹیٹمنٹس اور آمدن کا جو ڈیٹا ایف بی آر کو نادرا نے فراہم کیا ہے ان پر کام نہیں کیا جا سکا۔ ایسی صورتحال میں گوگل والٹ سے معیشت ڈیجیٹل ہونا مشکل ہے۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔