بلوچستان میں حکام کے مطابق ہفتے کو نوشکی اور قلات کے علاقے منگچر میں مسلح افراد کی فائرنگ سے چار پولیس اہلکاروں سمیت آٹھ افراد جان سے گئے ہیں۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نوشکی محمد ہاشم مہمند نے فون پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہفتے کی شام مسلح افراد نے غریب آباد کے علاقے میں پولیس کی گاڑی پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں چار پولیس اہلکار موقعے پر مارے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ مرنے والے پولیس اہلکاروں کا تعلق نوشکی کے مختلف علاقوں سے ہے۔
جبکہ ہفتے کو ایک اور واقعے میں منگچر کے ملنگزئی مقام پر مسلح افراد نے فائرنگ کر کے چار مزدوروں کو قتل کر دیا ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر منگچر ڈاکٹر علی گل نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پنجاب کے ضلع صادق آباد سے تعلق رکھنے والے چار مزدور ملنگزئی میں ایک ٹیوب ویل پر کام کر رہے تھے کہ مسلح موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں چاروں مزدور جان سے گئے۔‘
وزیراعظم محمد شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے قلات کے علاقے منگچر میں شدت پسندوں کی جانب سے مزدوروں پر فائرنگ کی شدید مذمت کی۔
وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’ملک سے ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔‘
ان دو قاتلانہ حملوں میں جانوں کے ضیاع پر وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ نوشکی میں پولیس موبائل پر حملہ قابل مذمت ہے۔ ’قتل کی وحشیانہ کارروائی کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پولیس اہلکاروں اور بے گناہ مزدوروں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے بلوچستان میں کوئی جگہ نہیں۔‘
انہوں نے بیان میں کہا کہ ’دشمن عناصر کی کمر توڑ کر امن کے دشمنوں کو عبرت کا نشان بنائیں گے۔ ریاست کے دشمنوں کو نشان عبرت بنایا جائے گا۔‘
وزیر اعلیٰ کے مطابق پولیس اور سکیورٹی فورسز کو بھرپور وسائل فراہم کرکے شدت پسندوں کا خاتمہ یقینی بنائیں گے۔
بلوچستان میں دھرنا، پولیس سے جھڑپیں
دوسری جانب ہفتے کو کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے پر مبینہ طور پر پولیس کی فائرنگ سے بچے سمیت تین افراد مارے گئے جبکہ 13 زخمی ہوئے تھے۔
پولیس نے دھرنے سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو حراست میں لے لیا اور جیل منتقل کر دیا تھا۔
اس واقعے کے خلاف ہفتے کو کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی جبکہ بعض علاقوں میں مظاہرین نے قومی شاہراہوں کو بلاک کرکے ٹریفک معطل کر دی۔
تاہم پولیس کے مطابق ہفتے کی شب بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
پولیس نے بیان میں کہا کہ ’مظاہرین کے خلاف کارروائی اس وقت کی گئی جب کچھ مشتعل افراد نے یونیورسٹی کے مین گیٹ میں ڈاک خانے، گرین بس سٹاپ اور سیف سٹی کیمروں کو نقصان پہنچایا۔‘
پولیس کے مطابق مشتعل افراد کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔
دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دھرنا موخر کرتے ہوئے کہا کہ جلد آئندہ کا لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔
اسی ماہ بلوچستان میں ایک مسافر ریل گاڑی (جعفر ایکسپریس) کو ہائی جیک کر مسافروں کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ اس حملے میں تقریباً 60 لوگوں کی جان گئی جن میں سے نصف وہ علیحدگی پسند تھے جو اس حملے میں ملوث تھے۔