بلوچستان میں پوری ٹرین کو ہائی جیک کیے جانے کا حالیہ واقعہ اس حقیقت کی سنگین یاد دہانی ہے کہ مسلح اور ریاست مخالف گروہ اب بھی مزاحمت کر رہے ہیں اور ان کے طریقے دن بدن مزید جارحانہ ہوتے جا رہے ہیں۔
اس واقعے نے یہ بھی ثابت کیا کہ برسوں کی فوجی کارروائیوں، انٹیلی جنس آپریشنز اور جوابی حملوں کے باوجود کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کو قابو میں نہیں لایا جا سکا۔
ٹرین ہائی جیکنگ کے بعد کیے گئے فوجی آپریشن میں 33 حملہ آور مارے گئے اور تقریباً 350 یرغمالیوں کو بازیاب کروایا گیا لیکن اس ’کامیابی‘ کی بھاری قیمت بھی ادا کرنی پڑی کیونکہ 31 مسافر بھی جان سے جا چکے ہیں، جن میں فوجی، ریلوے کے ملازمین اور عام شہری شامل تھے۔
یہ المیہ صرف جانی نقصان تک محدود نہ رہا بلکہ اس کے سفارتی اثرات بھی نمایاں ہوئے۔ اسلام آباد نے انڈیا اور افغانستان پر ان عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا، جسے دونوں ممالک نے فوری طور پر مسترد کر دیا مگر سفارتی الزام تراشی کے بجائے ایک بنیادی سوال پر غور کرنا زیادہ ضروری تھا اور وہ یہ کہ بلوچستان میں کئی دہائیوں کی فوجی کارروائیوں کے باوجود بدامنی کیوں برقرار ہے؟
بلوچستان 1947 میں پاکستان کے قیام سے ہی بدامنی کا شکار رہا ہے۔ یہاں پہلی بغاوت 1948 میں ہوئی اور اس کے بعد 1958، 1962 اور 77-1973 میں مزید مزاحمتی تحریکیں ابھریں، جن میں 55 ہزار سے زائد جنگجوؤں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔
2003 میں شروع ہونے والی موجودہ شورش سب سے طویل ثابت ہوئی ہے۔ اس کی قیادت اور حربے وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہیں لیکن بنیادی مطالبات وہی ہیں یعنی زیادہ خودمختاری، وسائل پر اختیار اور سیاسی حقوق۔
مسلسل مزاحمت کے جواب میں ہر حکومت نے فوجی طاقت کا استعمال کیا مگر یہ پالیسی صرف وقتی طور پر ہی مؤثر ثابت ہوئی کیونکہ جیسے ہی ایک آپریشن ختم ہوتا، شورش پھر سر اٹھا لیتی تو یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آیا کوئی دوسرا طریقہ اپنایا جا سکتا تھا؟
1980 کی دہائی میں سندھی قوم پرستی اس وقت کمزور پڑی، جب اس کے رہنماؤں کو سیاسی دھارے میں شامل کر لیا گیا۔ ایم کیو ایم کی 1990 کی دہائی میں مجرمانہ سرگرمیوں کو بھی طاقت اور مذاکرات کے امتزاج سے ختم کیا گیا، تو پھر بلوچستان میں یہی ماڈل کیوں نہیں آزمایا گیا؟
بلوچستان کے لیے کیا حکمت عملی اپنائی جائے؟ کیا پاکستان سری لنکا کے 2009 کے ماڈل پر عمل کرے جہاں کولمبو نے تامل ٹائیگرز کو ایک بے رحم فوجی مہم میں کچل دیا؟ اگرچہ یہ مؤثر ثابت ہوا مگر اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ سری لنکن حکومت پر جنگی جرائم کے الزامات لگے، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور ملک میں نسلی تقسیم گہری ہو گئی۔ پاکستان کی موجودہ معاشی اور سیاسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے کیا ہم اتنا بڑا خطرہ مول لے سکتے ہیں؟ اور کیا یہ واقعی مسئلے کو ختم کر دے گا یا اسے عارضی طور پر دبا دے گا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک اور راستہ شمالی آئرلینڈ کی طرز پر امن مذاکرات کا ہے۔ 1998 کے گڈ فرائیڈے معاہدے نے طاقت میں شراکت، عام معافی اور بڑے سیاسی سمجھوتوں کے ذریعے عشروں کی شورش ختم کر دی، مگر بلوچستان میں 2009 کا مفاہمتی پیکج ناکام رہا کیونکہ دونوں فریق ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کر سکے۔ کیا کوئی نئی حکومت آئرش ماڈل کی طرز پر بلوچ علیحدگی پسندوں کو وہی مراعات دینے پر تیار ہوگی؟
کولمبیا میں باغیوں کو دھیرے دھیرے امن عمل، اقتصادی بحالی اور عام معافی کے ذریعے رام کیا گیا لیکن اس کے باوجود کچھ سخت گیر عناصر نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔ بلوچستان میں بیرونی عناصر پہلے ہی صورت حال کو مزید بھڑکا رہے ہیں تو کیا ہمارے پاس اتنا طویل المدتی طریقہ اپنانے کی گنجائش ہے؟
انڈونیشیا کے آچے ماڈل میں جکارتہ نے آچے صوبے کو خصوصی خودمختاری دی، فوج واپس بلائی اور باغیوں کو حکومت میں شامل کیا۔ اس کے بعد امن قائم ہو گیا مگر اس سے دیگر علیحدگی پسند تحریکوں کو بھی حوصلہ ملا۔ کیا پاکستان بھی ایسا خطرہ مول لے سکتا ہے؟
یہ بات قابل توجہ ہے کہ ان تمام کامیاب ماڈلز میں ایک چیز مشترک ہے یعنی فوجی کارروائیاں مسئلے کا مستقل حل نہیں ہوتیں، جب تک کہ بہتر حکمرانی، بنیادی سہولیات اور ترقیاتی منصوبے ان کا ساتھ نہ دیں۔
مقامی مسائل کو نظر انداز کیا جائے تو عسکری گروہ انہیں اپنے حق میں استعمال کر سکتے ہیں۔ داخلی تنازعات حل نہ کیے جائیں تو غیر ملکی عناصر انہیں مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔
پاکستان کی اپنی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے۔ آپریشن شیر دل (2008)، راہِ راست (2009) اور راہِ نجات (10-2009) نے شدت پسندوں کے ٹھکانے ختم کیے مگر اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی اور سرحد پار نیٹ ورکس مضبوط ہو گئے۔
ضربِ عضب (16-2014) نے دہشت گردی کا ڈھانچہ توڑ دیا مگر اس نے اربن سکیورٹی کے چیلنجز بڑھا دیے۔ رد الفساد جو 2017 سے تاحال جاری ہے، نے شہری حملے کم کیے، مگر قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندی برقرار رہی۔ کراچی آپریشن (2013) نے جرائم اور دہشت گردی کو کم تو کیا مگر سیاسی دراڑیں واضح کر دیں۔
تو پاکستان کو کیا راستہ اختیار کرنا چاہیے؟ سری لنکا طرز کی جنگ، جو غیر عملی ہے، شمالی آئرلینڈ کا امن معاہدہ، جو بہت سست رفتار ہے یا کولمبیا ماڈل، جو حد سے زیادہ طویل ہے؟ زیادہ مؤثر حکمتِ عملی انٹیلی جنس پر مبنی سکیورٹی ہے، جو ردعمل دینے کے بجائے پہلے سے اقدامات کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی شمولیت بھی ضروری ہے۔ بلوچستان کے عوام کو دبانے کے بجائے نمائندگی کا احساس دلانا ہوگا۔
غربت، سماجی محرومی اور حکومتی کمزوری جیسے بنیادی مسائل حل کیے بغیر کوئی بھی حل دیرپا نہیں ہوگا۔ بلوچستان کی اقتصادی ترقی سے سب سے پہلے بلوچ عوام کو فائدہ ہونا چاہیے، نہ کہ صرف کارپوریشنز اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو۔ اگر ایسا نہ ہوا تو مسلح گروہ ہٹ بھی جائیں، تب بھی محرومی کا احساس برقرار رہے گا، جو مزید طویل المدتی خطرہ ہے۔
سب سے بڑھ کر بلوچستان کی شناخت کو بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں مسخ ہونے سے بچانا ضروری ہے۔ ماہ رنگ بلوچ، جو نوبیل انعام کے لیے نامزد ہو چکی ہیں اور ٹائم میگزین کی 100 بااثر شخصیات میں شامل ہیں، بلوچ جدوجہد میں ایک ابھرتی ہوئی آواز ہیں۔ کیا ان جیسے حقیقی نمائندوں سے مذاکرات کا راستہ اپنانا بہتر نہیں ہوگا؟ کیا یہ معصوم جانیں بچانے میں مدد دے سکتا ہے؟
پاکستان نے بے دریغ طاقت آزما لی، اس نے حقیقت کو ماننے کے بجائے اسے جھٹلانے کی کوشش بھی کر لی، اب شاید کچھ زیادہ دانش مندانہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ روایتی بلوچ جرگہ صدیوں سے قبائلی تنازعات حل کرتا آیا ہے۔ اگر یہ بلوچ قبائل کے درمیان صلح کروا سکتا ہے تو اسے ریاست اور بلوچ عوام کے درمیان مفاہمت کے لیے کیوں استعمال نہیں کیا جا سکتا؟
بشکریہ عرب نیوز
مصنف نے سیاسیات اور عالمی تعلقات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ وہ وفاقی سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل آف پولیس رہ چکے ہیں۔ ان کا ایکس ہینڈل @KaleemImam ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔