اسلام آباد کی ضلعی عدالت کی جانب سے جمعے کو صحافی وحید مراد کی ضمانت منظور کیے جانے کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔
26 مارچ کو تحویل میں لیے گئے صحافی کو آج دو روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج عباس شاہ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
جمعے کو سماعت کے آغاز پر جج عباس شاہ نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے نمائندے سے استفسار کیا کہ ’وحید مراد سے کیا برآمد کیا گیا ہے؟‘
وحید مراد کی وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ ’انہوں نے (بلوچستان نیشنل پارٹی) کے اختر مینگل کے الفاظ کو کوٹ کر کے ایک پوسٹ کی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وکیل ہادی علی چٹھہ نے پوسٹ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’وحید مراد کی پہلی پوسٹ اختر مینگل کا بیان تھا۔‘
ایف آئی اے کے اہلکار نے کہا کہ اختر مینگل کی جس پوسٹ کی بات کی جا رہی ہے، اس میں ’بلوچ نسل کشی‘ کی بات کی گئی۔
سماعت کے بعد عدالت نے 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض صحافی وحید مراد کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرکے ان کی رہائی کا حکم دے دیا۔
صحافی کے اہل خانہ کے مطابق 26 مارچ کو وحید مراد کو اسلام آباد کے سیکٹر جی ایٹ میں واقع ان کے گھر سے ’سادہ کپڑوں میں ملبوس نقاب پوش افراد نے اغوا‘ کر لیا تھا۔
وحید مراد کی بازیابی کے لیے ان کے اہل خانہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی۔
وحید مراد ’اردو نیوز‘ سے وابستہ صحافی ہیں۔ اس سے قبل وہ ’نیوز ون‘ اور روزنامہ ’اوصاف‘ کے ساتھ بطور رپورٹر منسلک تھے۔ وہ ’پاکستان 24‘ کے نام سے اپنی ایک نیوز ویب سائٹ بھی چلاتے ہیں اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کافی فعال نظر آتے ہیں۔