کراچی کے امین ہاؤس سے 307 افغان پناہ گزین واپس وطن روانہ

ڈسٹرکٹ کیماڑی کے کمشنر طارق چانڈیو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پہلے مرحلے میں 300 سے زائد افغان پناہ گزین کو چھ بسوں کے ذریعے پولیس سکیورٹی کے ساتھ روانہ کر دیا گیا ہے۔

پاکستان میں حکومت کی جانب سے دی جانے والی ڈیڈ لائن رواں ماہ کے آغاز پر ختم نے کے بعد افغان سٹیزن کارڈ کے حامل پاکستان میں مقیم افغان پناہ ازینوں کو کی وطن واپسی کا عمل تیز کرتے ہوئے انہیں کراچی سمیت سندھ کے مختلف علاقوں سے پولیس کی سکیورٹی میں امین ہاؤس میں واقع کیمپ میں منتقل کیا جا رہا ہے۔

رواں ماہ 4 اپریل 2025 کو شروع ہونے والے اس آپریشن کے دوسرے فیز کا آغاز عید الفطر کے بعد کیا گیا۔

انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم نے امین ہاؤس نامی اس کیمپ کا دورہ کیا جہاں ان افغان باشندوں کو کراچی کے مختلف علاقوں سے منتقل کیا جا رہا ہے۔

امین ہاؤس دراصل سکاؤٹ ہاسٹل ہے جو حاجی کیمپ کے طور پر بھی کام کرتا رہا ہے۔

کیمپ میں پولیس کی سخت سکیورٹی ہے جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں پولیس موبائل میں سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب ہیں جن سے کیمپ اور اطراف کی نگرانی کی جاتی ہے۔

تاہم میڈیا کو امین ہاؤس کیمپ کے اندر کوریج کی اجازت نہیں دی گئی، جس کے سبب کیمپ کے اندر افغان باشندوں کے رہنے اور انتظامات کی صورت حال پر بات نہیں کی جا سکتی۔

گیٹ پر واضح طور پر تختی لگائی گئی تھی جس پر لکھا گیا تھا کہ غیر متعلقہ افراد کا داخلہ ممنوع ہے۔ کیمپ کے ایک جانب پولیس کا عملہ موجود تھا، جو اندر جانے والوں کی شناخت کو تحریری طور پر محفوظ کر رہا تھا۔

رضاکارانہ طور پر واپس جانے والے افغان پناہ گزین

کیمپ میں آنے والے افغان پناہ گزین میں کچھ ایسے بھی تھے جو رضاکارانہ طور پر وطن واپس جانا چاہتے تھے۔

ہم نے دیکھا کہ ایک ٹرک میں پانچ افغان خاندان، جن میں 35 افراد تھے، واپس جانے کے لیے امین ہاؤس پہنچے۔ ان خاندانوں میں بچے، خواتین اور بزرگ بھی شامل تھے۔

ان فیملیز کا کہنا تھا کہ وہ گذشتہ 40 سال سے پاکستان میں مقیم تھے اور اب اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد زمان بھی اسی ٹرک کے ذریعے سلطان آباد کیمپ میں اپنی فیملی کو لے کر رضاکارانہ طور پر پہنچے۔

انہوں نےانڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’وہ کراچی ٹول پلازہ کے اطراف سے آئے ہیں اور ایک سال کا وقت پاکستان کے شہر کراچی میں گزارا۔‘

انہوں نے پاکستان کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ اپنے وطن جا کر نئی زندگی کی شروعات کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ڈسٹرکٹ کیماڑی کے کمشنر کا بیان

اسی حوالے سے ڈسٹرکٹ کیماڑی کے کمشنر طارق چانڈیو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’سلطان آباد میں واقع امین ہاؤس کیمپ میں افغان پناہ گزین کی رہائش کے انتظامات پہلے سے ہی مکمل کیے جا چکے تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ چار اپریل کے پہلے فیز میں 300 سے زائد افغان پناہ گزین کو چھ بسوں کے ذریعے پولیس سکیورٹی کے ساتھ روانہ کیا گیا ہے۔ ان میں مرد، خواتین اور بچے شامل تھے۔

’انہیں براستہ جیکب آباد سے چمن بارڈر پر افغان حکام کے حوالے کیا جا رہا ہے، اور دوسرے فیز میں بھی افغان پناہ گزین کو اسی طریقہ کار کے تحت وطن روانہ کیا جائے گا۔‘

کمشنر کیماڑی کے مطابق آپریشن پورے قوانین کے ساتھ جاری ہے اور یہاں افغان پناہ گزین کو باعزت انداز میں رکھا جا رہا ہے۔

صوبائی وزیر سندھ کا بیان

سینیئر وزیر سندھ شرجیل انعام میمن نے اس آپریشن کی حمایت کرتے ہوئے سات اپریل کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ صوبے بھر میں غیرقانونی افغان تارکین وطن کے انخلا کی مہم جاری رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان عالمی اصولوں کے مطابق غیرقانونی تارکین وطن کو ان کے وطن واپس بھیج رہا ہے۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’307 افراد کو امین ہاؤس ٹرانزٹ کیمپ سے ان کے وطن روانہ کیا گیا ہے۔ ان میں 79 بچے، 37 خواتین اور 191 مرد شامل تھے۔‘

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی وکیل منیزہ کاکڑ نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’افغان پناہ گزین کا غیرقانونی انخلا ہو رہا ہے، یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، پاکستان کے اپنے آئین کی خلاف ورزی ہے۔‘

منیزہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ ’جن لوگوں سے بھی بات ہو رہی ہے ان کے پاس سٹیزن کارڈ موجود ہیں۔ ان کارڈ کو رجسٹرڈ تصور کیا جاتا تھا اور عدالت بھی اس پر ریلیف دیتی تھی، اب حکومت نے جو پالیسی بنائی ہے اس کے مطابق سٹیزن کارڈ ہولڈر ان ڈاکیومنٹڈ ہیں، ان کو بھی نکال رہے ہیں جن کی تعداد 8 لاکھ ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ انخلا جس میں بھائی کو بھائی سے جدا کیا جا رہا ہے، والدین کو بچوں سے جدا کیا جا رہا ہے، فطری عمل کی خلاف ورزی ہے۔ ایسے کیسز بھی سامنے آئے جن میں والدین میں سے ایک کے پاس کارڈ ہے دوسرے کے پاس نہیں ہے، جس سے بہت زیادہ دشواری آ رہی ہے۔‘

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی وکیل منیزہ کاکڑ نے حکومت سے انخلا کا یہ عمل روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’پناہ گزین قوانین کے مطابق افغان پناہ گزین کے لیے میکنزم بنایا جائے۔

دوسری جانب افغان طالبان حکومت کے وزیر برائے پناہ گزین نے بھی ایک بار پھر افغان باشندوں کے انخلا کی مذمت کی ہے۔

باختر نیوز کے مطابق وزیر برائے پناہ گزین نے اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’افغانوں کی پاکستان سے جبری بے دخلی اسلامی اصولوں، انسانی اقدار اور بین لاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان