ڈاکو ایپس اور جھوٹے اشتہار استعمال کرنے لگے: کراچی پولیس

ایس ایس پی انیل حیدر منہاس کے مطابق ملزمان اب غیر ملکی سم بھی استعمال کرنے لگے ہیں، ان سمس پر فون تو استعمال ہوتا ہے مگر ان کا نمبر ٹریس نہیں ہوتا۔

کراچی پولیس کے مطابق جدید دور میں نئی ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافے کے ساتھ جرائم پیشہ افراد، خاص طور پر اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے لیے مجرم بھی ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں۔

کراچی پولیس کے اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) انیل حیدر منہاس کے مطابق اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے لیے جرائم پیشہ افراد آن لائن ایپس، سوشل میڈیا سمیت ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے وارداتیں کرنے لگے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انیل حیدر منہاس نے کہا: ’شمالی سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں کا ’ہنی ٹریپ‘ (فون یا واٹس ایپ پر خواتین کی آواز میں لوگوں کو بلا کر اغوا کرنے) والا طریقہ تو اب عام ہو گیا ہے۔

’وقت گزرنے کے ساتھ ڈاکو سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے سستی اشیا جیسے سستا ٹریکٹر یا گاڑی بیچنے، نوکری یا کام دینے کا اشتہار چلاتے ہیں اور ان کے جھانسے میں آ کر لوگ ڈاکوؤں کے بتائے ہوئے پتے پر چلے جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’لوگ خود چل کر ڈاکوؤں کے پاس جاتے ہیں اور اغوا ہو جاتے ہیں، جس کے بعد ڈاکو ان کے گھر والوں سے تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘

ایس ایس پی منہاس نے کہا کہ اس کے علاوہ اب ڈاکو انسٹاگرام پر رشتہ کرانے والی جھوٹی کمپنی بنا کر جھوٹی تصاویر کے ساتھ پہلی یا دوسری شادی کے خواہشمندوں کے لیے اشتہار چلاتے ہیں۔

’بعد میں انہیں دلہن دکھانے کے لیے گھوٹکی، شکارپور کے قریب کچے میں بلا کر اغوا کرکے ان کے گھروالوں سے تاوان طلب کرتے ہیں۔‘

انیل حیدر منہاس کے مطابق ڈاکو اغوا کے بعد مغوی پر ’شدید تشدد کی جھوٹی ویڈیو‘ بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہیں، تاکہ مغوی کے گھر والوں اور پولیس پر دباؤ ڈالا جا سکے اور وہ جلد ہی تاوان کی رقم ادا کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول انیل حیدر منہاس اغوا برائے تاوان کے لیے جرائم پیشہ افراد مغوی کو اغوا کرنے کے بعد ان کے گھر والوں سے تاوان کی رقم کے لیے اپنا فون استعمال کرنے کے بجائے مغوی کا فون استعمال کرتے ہیں، تاکہ پولیس ان کی شناخت نہ کر سکے۔

’مگر پولیس ملزمان کے اس طریقے کے متبادل کے طور پر مغوی کے نمبر کی لوکیشن ٹریس کر کے ملزمان تک پہنچتی ہے۔‘

انیل حیدر منہاس کے مطابق کراچی جیسے بڑے شہروں میں قلیل مدت کے لیے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے لیے جرائم پیشہ افراد ٹرانسپورٹ کی آن لائن ڈیجیٹل ایپس کا استعمال کرنے لگے ہیں۔

’ان ایپس کے ذریعے ملزمان جھوٹی ٹیکسی یا موٹرسائیکل ڈرائیور کی حیثیت سے رائیڈ بک کرتے ہیں۔ جب سواری کرنے والا فرد آ جاتا ہے تو ملزمان انہیں کہتے ہیں کہ وہ رائیڈ کینسل کر دیں انہیں اسی رقم میں منزل تک پہنچا دیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’جب رائیڈ کینسل ہو جاتی ہے تو یہ ملزمان اس فرد کو اغوا کر کے ان سے اے ٹی ایم سے رقم نکال لیتے ہیں یا آن لائن ٹرانسفر کرا دیتے ہیں۔

ایس ایس پی نے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ آن لائن استعمال کرتے ہوئے عوام کسی کے جھانسے یا کم رقم کی لالچ میں اکر رائیڈ کینسل نہ کریں تاکہ پولیس بعد میں ڈیجیٹل ایپلی کیشن کی مدد سے ملزمان تک پہنچ سکے۔

’اسی طرح حالیہ دنوں ایک کیس میں ملزمان نے قلیل مدت کے لیے اغوا کرکے ان کے فون میں موجود کرپٹو کرنسی اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کرائی، اس لیے اگر کسی کے پاس کرپٹو کرنسی کی ایپلی کیشن ہے تو بہت احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔‘

انیل حیدر منہاس کے مطابق ملزمان اب غیر ملکی سم بھی استعمال کرنے لگے ہیں، ان سمس پر فون تو استعمال ہوتا ہے مگر ان کا نمبر ٹریس نہیں ہوتا۔

’جیسے کراچی کے نوجوان مصطفیٰ عامر کے اغوا اور بعد میں قتل کیس میں امریکہ کے نمبر والی سم استعمال کی گئی، جس کے باعث مجرمان تک پہنچنے میں پولیس کو وقت لگا۔

بقول انیل حیدر منہاس: ’جیسے جیسے جرائم پیشہ افراد ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے وارداتیں کرتے ہیں، ویسے پولیس بھی خود کو کاؤنٹر ٹیکنالوجی  کا استعمال کر کے ملزمان تک پہنچ رہی ہے۔

’پولیس نے حالیہ برس ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے ہنی ٹریپ کے تین ملزمان کو گرفتار کرکے مغویوں کو بازیاب کرایا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان