پاکستان اور افغانستان کی مرکزی سرحدی گزرگاہ ’طورخم بارڈر‘ کے ذریعے افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا عمل جاری ہے اور اسسٹنٹ کمشنر لنڈی کوتل عدنان ممتاز نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ واپس جانے والوں کی عزت نفس کو یقینی بنایا جائے۔
حکومت نے طورخم کے مقام پر ٹرانزٹ کیمپ قائم کر رکھا ہے جس کا مقصد ڈپورٹ ہونے والے افغان پناہ گزینوں کا ڈیٹا اکھٹا کرنا اور ان کو واپسی پر سہولیات کی فراہمی ہے۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ و قبائلی امور کے اعداد و شمار کے مطابق یکم اپریل سے اب تک دو لاکھ 21 ہزار 781 افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجا گیا۔
پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کی رضاکارانہ وطن واپسی کے لیے 31 مارچ کی ڈیڈ لائن مقرر کی تھی، جس کے ختم ہونے پر یکم اپریل سے ملک کے بیشتر شہروں کریک ڈاؤن شروع کیا گیا۔
محکمہ داخلہ کے مطابق واپس بھیجے جانے والے افغان پناہ گزینوں کو پنجاب کے مختلف شہروں بشمول سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور فیصل آباد وغیرہ سے لایا گیا تھا اور لنڈی کوتل میں قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعد انہیں سرحد پار بھیج دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغان باشندے گلاب نے انڈیپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ وہ پاکستان جانے پر ایک طرف اگرچہ خوش ہیں تو دوسری جانب اداس بھی ہیں کیونکہ انہیں نکلنے کے لیے صرف پانچ گھنٹے کا وقت دیا گیا۔
’اس پر مجھے کافی دکھ ہوا۔ 31 مارچ کی ڈیڈ لائن کی وجہ سے ہم عید کی خوشیاں بھی ٹھیک طریقے سے نہیں منا سکے۔
’انہوں میری پیدائش پاکستان میں ہوئی اور اسی ملک میں محنت مزدوری کرتے ہوئے بڑا ہوا۔ میں پاکستان کو ہی اپنا ملک سمجھتا ہوں۔‘
اسسٹنٹ کمشنر لنڈی کوتل عدنان ممتاز نے انڈپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ٹرانزٹ کیمپ کا مقصد ڈپورٹ ہونے والے افغان پناہ گزینوں کا ڈیٹا اکھٹا کرنا اور ان کو واپسی پر سہولیات مہیا کرنا مقصود ہیں۔