کیلیفورنیا نے جاپان کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت بننے کا اعزاز حاصل کر لیا ہے، اور اب یہ ’گولڈن سٹیٹ‘ صرف امریکہ، چین اور جرمنی سے پیچھے ہے۔
امریکی بیورو آف اکنامک اینالیسس کے ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال کیلیفورنیا کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) 41 کھرب ڈالر تک پہنچ گئی، جو امریکہ کی کل جی ڈی پی کا تقریباً 14 فیصد ہے۔
اس تخمینے کے مطابق، امریکہ کی سب سے خوشحال اور گنجان آباد ریاست کیلیفورنیا نے جاپان کو اقتصادی درجہ بندی میں پیچھے چھوڑ دیا، جس کی 2024 میں جی ڈی پی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق 40.2 کھرب ڈالر رہی۔
کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے جمعرات کو ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا:
’ہم جاپان سے آگے نکل کر اب دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت قرار پائے ہیں۔ ہماری ترقی کی شرح گذشتہ سال امریکہ، چین اور جرمنی سے زیادہ رہی۔ ہماری ریاست کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم نئے کاروباروں کے آغاز، وینچر کیپیٹل فنڈنگ، مینوفیکچرنگ اور زراعت میں پہلے نمبر پر ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’کیلیفورنیا دنیا کے ساتھ صرف قدم سے قدم ملا کر نہیں چل رہا، ہم رفتار طے کر رہے ہیں۔‘
جمعرات کو Meidastouch نیٹ ورک کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، ڈیموکریٹ گورنر نیوسم نے رپبلکن پارٹی کے اس بیانیے کو مسترد کرنے کی کوشش کی کہ ڈیموکریٹ ریاستیں کم خوشحال ہیں۔
انہوں نے کہا: ’یہ ایک افسانہ ہے کہ سرخ ریاستیں ترقی کر رہی ہیں اور نیلی ریاستیں پیچھے رہ گئی ہیں۔ یہ حقیقتاً غلط ہے۔‘
کیلیفورنیا کی سلیکون ویلی اور سان فرانسسکو بے ایریا کو دنیا میں ٹیکنالوجی اور اختراع کا مرکز سمجھا جاتا ہے، جہاں ایپل اور گوگل کی پیرنٹ کمپنی الفابیٹ جیسے ادارے موجود ہیں۔
یہ ریاست امریکہ میں سب سے بڑی مینوفیکچرنگ اور زرعی پیداوار کی حامل ہے، یہاں ملک کی دو سب سے بڑی بندرگاہیں واقع ہیں اور یہ دنیا کی فلم اور تفریحی صنعت کا مرکز بھی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نئے اعداد و شمار کے مطابق، کیلیفورنیا کی جی ڈی پی صرف امریکہ (292 کھرب ڈالر)، چین (187 کھرب ڈالر) اور جرمنی (47 کھرب ڈالر) سے پیچھے ہے۔ پچھلے سال ان چاروں میں کیلیفورنیا کی معیشت سب سے زیادہ تیزی سے بڑھی۔
بدھ کو جاری کردہ ایک بیان میں، نیوسم نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بین الاقوامی تجارتی جنگ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا: ’وفاقی حکومت کی موجودہ بے احتیاط اور نقصان دہ ٹیرف پالیسیز کیلیفورنیا کی معاشی قوت کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’کیلیفورنیا کی معیشت پورے ملک کو توانائی فراہم کرتی ہے، اور اس کی حفاظت ضروری ہے۔‘
یہ پیش رفت اس مقدمے کے بعد سامنے آئی جو گذشتہ ہفتے نیوسم اور کیلیفورنیا کے اٹارنی جنرل روب بونٹا نے ریاست کی جانب سے صدر ٹرمپ اور ان کی ’غیر ذمہ دار اور بے مثال‘ ٹیرف پالیسی کے خلاف دائر کیا۔
مقدمے میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ چونکہ کیلیفورنیا ’بین الاقوامی تجارت میں رہنما‘ ہے، اس لیے نئی بھاری ٹیرف پالیسیز کے اخراجات کا سب سے زیادہ بوجھ اسی پر پڑے گا۔
اسی مہینے کے آغاز میں، صدر ٹرمپ نے تقریباً تمام ممالک سے درآمد ہونے والی اشیا پر 10 فیصد کی ٹیرف نافذ کی، جب کہ ’زیادہ نقصان دہ ممالک‘ پر زیادہ ٹیرف لگانے کے 90 دن کی تاخیر کا اعلان کیا۔
ٹرمپ نے چینی اشیا پر 145 فیصد ٹیرف لگایا، جس کے جواب میں چین نے امریکی اشیا پر 125 فیصد درآمدی ٹیکس نافذ کر دیا۔
امریکہ کے ہمسایہ ممالک میکسیکو اور کینیڈا پر بھی 25 فیصد ٹیرف لاگو کیے گئے، کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کا موقف تھا کہ وہ چاہتی ہے کہ یہ ممالک غیر قانونی تارکین وطن اور منشیات کی سمگلنگ روکنے کے لیے مزید اقدامات کریں۔
© The Independent