سکردو شہر کے پرانے بازار میں ایک ایسی دکان ہے جو 1959 میں ایک بیکری کے طور پر شروع ہوئی تھی، بعد میں یہ جنرل سٹور بنی، اور اب یہ ایسی نایاب جڑی بوٹیوں، دیسی ادویات اور نسخوں کی دکان بن گئی ہے جو پورے علاقے میں اور کہیں دستیاب نہیں ہیں۔
حاجی مٹھائی کی دکان پورے بلتستان میں مشہور ہے۔ جو چیز آپ کو پورے شہر سے نہ ملے وہ حاجی مٹھائی کے ہاں سے بروقت مل جاتی ہے۔
اس دکان کا نام ’مٹھائی‘ اس لیے رکھا گیا جب ان کے والد محترم اور تایا نے 1959 میں کھرمنگ سے ہجرت کر کے سکردو شہر میں دونوں نے مل کر پہلے مٹھائی بنانے کی دکان کھولی، مگر تایا کی وفات کے بعد یہ جنرل سٹور میں تبدیل ہو گئی، اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جڑی بوٹیوں اور دیسی ادویات اور نسخوں کی دکان بن گئی۔
اس دکان میں سلاجیت، اجوائن، شمدون، زعفران، اور ان کی متعدد نایاب قسمیں، مشک عنبر، خشخاش، چاندی ورقہ، گلہری کے دانت، مارخور کی کھال، گھوڑے کی دم، یاک کے سینگ اور اس طرح کی اشیا، پھر عاملوں کے کام کی چیزیں کالا مرغ، الو کے پر، بلی کی مونچھیں، لومڑی کی دم، انار، انجیر، سیاہ گلاب کی ڈنڈیاں، کینو کے خشک چھلکے، زہر مہرہ، اخروٹ کا تیل، خوبانی کا تیل اور حتیٰ کہ تیار شدہ تعویز بھی ملتے ہیں، جن میں دعائے جوشن کبیر، ناد علی، سورہ فاتح، سورہ الکرسی وغیرہ شامل ہیں۔
مقامی نسل کی تمام تر جڑی بوٹیاں حسب ضرورت حالت و کیفیت میں اس دکان سے مل جاتی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے حسن مٹھائی کا کہنا تھا کہ ’ہم لوگوں کو ہر چیز مہیا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ کہتے ہیں کہ ’جس وقت ان کی مٹھائی کی دکان تھی، اس وقت سکردو پسماندہ علاقہ تھا اور یہاں پر کچھ مخصوص چیزیں نہیں ملتی تھیں تو والد مرحوم نے یہ سوچا کہ ایک چھت کے نیچے ساری چیزیں ملیں۔ جو چیز نہیں ملتی تھی وہ ڈائری میں لکھتے تھے اور راولپنڈی، لاہور اور دوسرے شہروں سے لا کر دو تین ماہ بعد یہاں لے آتے تھے۔
’اس زمانے میں سکردو میں فوکر جہاز آیا کرتے تھے، اس میں صرف چھ لوگوں کی گنجائش تھی۔ اس کے علاوہ ڈیکوٹا جہاز بھی سامان لے کر آتے تھے، اس میں ہر چیز ہارڈویئر، سٹیشنری، جنرل سٹور، میڈیکل سٹور وغیرہ کا سامان آتا تھا۔
’پھر یہ دکان پورے سکردو میں حاجی مٹھائی کے نام سے مشہور ہو گئی۔ تمام اضلاع یعنی خپلو، کھرمنگ، روندو، شگر میں مقامی جڑی سلاجیت کا کام پہلی بار والد مرحوم نے کیا۔ اس زمانے میں سلاجیت کو لوگ جانتے ہی نہیں تھے، نہ ہی انہیں معلوم تھا کہ اس کی کیا خصوصیات ہیں۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔