اسرائیل نے جمعے کو اقوام متحدہ کی ایک اعلیٰ عدالت میں اپنے خلاف نسل کشی کے مقدمے کو ’انتہائی مسخ شدہ‘ اور ’بدخواہی‘ پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ فلسطینی عوام کو تباہ کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔
نیدرلینڈز کے شہر دا ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل آج جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر مقدمے میں غزہ میں ’نسل کشی‘ کے ارتکاب کے الزامات پر اپنے دلائل پیش کیے۔
پریٹوریا چاہتا ہے کہ عدالت سات اکتوبر سے شروع ہونے والی غزہ پر اسرائیلی حملے ’فوری طور پر‘ بند کروائے۔
غزہ میں وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں کم از کم 23 ہزار 469 فلسطینی جان سے جا چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔
اسرائیل اور اس کے اتحادی امریکہ نے اس مقدمے کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا اور عالمی عدالت میں مضبوط دفاع کا عزم کیا ہے۔
‘عدالت میں اسرائیل کی نمائندگی کرنے والے چوٹی کے وکیل ٹال بیکر نے آج کہا کہ جنوبی افریقہ نے ’افسوس ناک طور پر عدالت کے سامنے انتہائی مسخ شدہ حقیقی اور قانونی تصویر پیش کی۔
انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل کا ردعمل اپنے دفاع میں ہے اور اس کا مقصد غزہ کی پٹی کے فلسطینی شہریوں کو نشانہ بنانا نہیں۔
بیکر نے کہا کہ اسرائیل دفاعی حملے کر رہا ہے نہ کہ فلسطینی عوام کے خلاف۔
اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے سماعت کے بارے میں کہا کہ ’جنوبی افریقہ کو یہ جان لینا چاہیے کہ یہ ہم نہیں، جو نسل کشی کا ارتکاب کر رہے ہیں بلکہ یہ حماس ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم اپنی دفاعی جنگ جاری رکھیں گے۔‘
ادھر واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ جنوبی افریقہ کا اسرائیل کے خلاف کیس بے بنیاد ہے۔
ملر نے کہا: ’حقیقت میں یہ (نسل کشی کرنے والے) وہ لوگ ہیں، جو اسرائیل پر پُرتشدد حملے کر رہے ہیں جو کھلے عام اسرائیل کے خاتمے اور یہودیوں کے قتل عام کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔‘
اس سے قبل عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف ’غزہ میں نسل کشی‘ کے مقدمے کی سماعت کا آغاز جمعرات کو ہوا اور ابتدا میں جنوبی افریقہ کے نمائندوں کو موقع فراہم کیا گیا کہ وہ اس معاملے پر اپنے دلائل دیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنوبی افریقہ نے جمعرات کو عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل پر اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ حماس کی سات اکتوبر کی کارروائی بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کا جواز پیش نہیں کر سکتی۔
جنوبی افریقہ کے وزیر انصاف رونالڈ لامولا نے کہا: ’کسی ریاستی علاقے پر کوئی مسلح حملہ چاہے کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو، کنونشن کی خلاف ورزیوں کا جواز فراہم کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کا دفاع کیا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سات اکتوبر کے حملے پر اسرائیل کا ردعمل اس حد کو پار کر گیا ہے جس سے نسل کشی کے حوالے سے کنونشن کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
جنوبی افریقہ کی وکیل عدیلہ ہاسم نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسرائیل کی بمباری مہم کا مقصد ’فلسطینیوں کی زندگی کو تباہ کرنا‘ ہے اور اس نے فلسطینیوں کو ’قحط کے دہانے پر‘ دھکیل دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’نسل کشی کا کبھی پیشگی اعلان نہیں کیا جاتا لیکن اس عدالت کے پاس گذشتہ 13 ہفتوں کے شواہد موجود ہیں، جو (اسرائیل کے) طرز عمل اور اس کے ارادے کو ظاہر کرتے ہیں اور جو نسل کشی کی کارروائیوں کے معقول دعوے کو درست ثابت کرتے ہیں۔‘
بین الاقوامی عدالت انصاف ممکنہ طور پر جنوبی افریقہ کی درخواست پر چند ہفتوں کے اندر فیصلہ دے گا۔ اس کے احکام حتمی اور قانونی ہیں لیکن اس کے پاس ان کو نافذ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔
یوکرین پر روس کے حملے کے ایک ماہ بعد بھی عالمی عدالت انصاف نے فوجی آپریشن کو روکنے کا حکم دیا تھا، جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔