کسی بھی واردات کے بعد جائے وقوع سے جب شواہد اکٹھے کیے جاتے ہیں تو ان میں واردات کرنے والے کے فنگر پرنٹس جمع کرنا بہت اہم ہوتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں جب سبھی کے بائیو میٹرکس کیے جاتے ہیں اور فنگر پرنٹس نادرا کے ریکارڈ میں جمع ہیں تو ایسے میں جائے وقوع سے اکٹھے کیے گئے فنگر پرنٹس کی مدد سے ملزم کو پکڑنا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔
نادرا حکام کے مطابق صرف ملزم کو پکڑنے کے لیے ہی نہیں بلکہ دیگر بہت سے کاموں کے سلسلے میں بھی فنگر پرنٹس زندگی کو سہل بنا دیتے ہیں جیسے اگر آپ اپنا اے ٹی ایم کارڈ گھر بھول گئے ہیں تو اے ٹی ایم مشین پر نصب بائیو میٹرک مشین پر اپنا انگوٹھا لگائیں اور مشین آپ کو بینک کے ریکارڈ میں موجود آپ کے فنگر پرنٹس سے پہچان کر پیسے نکلوانے کی اجازت دے دی گی۔ لیکن تب کیا ہوگا جب کسی کے فنگر پرنٹس ہی نہ ہوں؟
رابعہ شیخ ایک فیشن ڈیزائنر ہیں اور ان کی عمر 28 برس ہے۔ چند روز پہلے انہوں نے اپنا ڈیزائن کیا ہوا جوڑا کسی دوسرے شہر فروخت کیا اور خریدنے والی خاتون نے ایک موبائل نیٹ ورک کی مَنی ٹرانسفر سروس سے ان کی رقم انہیں بھجوا دی۔
رابعہ پہلی بار اس طریقے سے پیسے وصول کر رہی تھیں، اس لیے جب وہ پیسے نکلوانے پہنچیں تو اپنے آپ کو اصلی رابعہ ثابت کرنے کے لیے انہیں اپنا بائیو میٹرک کروانا تھا اور پیسے وصول کرنے تھے۔
رابعہ جانتی تھیں کہ ایسا ممکن نہیں ہو سکے گا، لیکن پھر بھی انہوں نے انگوٹھا مشین پر رکھا مگر سکرین پر انگوٹھے پر بنی لائنیں نمودار نہ ہوئیں۔ کئی بار کوشش کی، یہاں تک کہ ہاتھ کی دس کی دس انگلیاں آزما لیں مگر سکرین پھر بھی خالی۔ بالآخر رابعہ کو اپنی کسٹمر کو فون کرنا پڑا اور پیسے کسی اور کے نام پر منگوانے پڑے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے رابعہ نے بتایا کہ یہ مسئلہ ابھی کا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے۔ جب وہ پہلی بار اپنا شناختی کارڈ بنوانے گئیں تو تب بھی ان کے انگوٹھے کے نشان مشین نے نہیں پکڑے۔
’سب کے انگوٹھے کے نشان ریکارڈ میں ہوتے ہیں، میری دس انگلیوں کے نشانات لیے گئے جن میں سے صرف ایک دو کے ہی ہلکے پھلکے پرنٹس آئے جبکہ باقی انگلیوں کے پرنٹس نہیں آئے۔‘ اس صورت حال میں نادرا نے پھر ان کے والدین کی تصدیق کرکے انہیں شناختی کارڈ جاری کیا۔
لیکن یہ مسئلہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ رابعہ اپنے نام پر فون کی سم بھی نہیں نکلوا سکیں جبکہ بائیو میٹرک نہ ہونے کی وجہ سے ان کا بینک اکاؤنٹ بھی بند کر دیا گیا تھا جسے پھر انہوں نے نادرا سے تصدیق کروا کر اور اپنے ہاتھوں کی دس کی دس انگلیوں کے ہلکے پھلکے پرنٹس دے کر تصدیق کروایا اور یوں انہیں بڑی مشکل کے بعد اپنا بینک اکاؤنٹ واپس ملا۔
رابعہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں بچپن سے پسینہ بہت زیادہ آتا ہے، حتیٰ کہ سردیوں میں بھی ان کے ہاتھ پاؤں پسینے سے شرابور رہتے ہیں اور اگر پسینہ نہ آئے تو ان کے ہاتھوں پر شدید خشکی ہو جاتی ہے، یہاں تک کہ ان کی جلد میں سوراخ ہوجاتے ہیں اور جلد جھڑنا شروع ہوجاتی ہے۔
انہوں نے ایک بار آکوپنکچر کا طریقہ علاج بھی اپنایا، مگر اس کا کوئی فائدہ ہونے کی بجائے انہیں اپنے ہاتھوں میں ایک سال تک درد محسوس ہوتا رہا، جس کی وجہ سے دوبارہ کوئی علاج کروانے کی ان کی ہمت نہیں ہوئی۔
اس حوالے سے ہم نے جلد کے امراض کے ماہر ڈاکٹر عبدالرفیق سمیع سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ رابعہ اس مرض میں اکیلی نہیں ہیں بلکہ بہت سے لوگ ہیں جن کے فنگر پرنٹس نہیں ہوتے یا مختلف وجوہات کی وجہ سے ختم ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر سمیع نے بتایا کہ عمر رسیدہ لوگوں کے فنگر پرنٹس بھی ختم ہوجاتے ہیں یا گِھس جاتے ہیں اور پھر وہ لوگ جن کی جلد بہت زیادہ خشک ہو ان کے فنگر پرنٹس بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ اس لیے خشک جلد والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی جلد پر کوئی کریم لگا کر رکھیں تاکہ خشکی سے ان کی جلد نہ جھڑے۔
امریکن ایسوسی ایشن فار ایڈوانسمنٹ آف سائنس (اے اے اے ایس) کے سائنس میگزین میں 2011 میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق 2007 میں سوئٹزر لینڈ کی ایک خاتون جو امریکہ جانا چاہتی تھی، انہیں امیگریشن پر روک لیا گیا کیونکہ ان کی تصویر تو میچ ہو گئی مگر جب ہاتھوں کے پرنٹس لیے گئے تو ان پر کچھ ظاہر نہ ہوا جس کے بعد وہیں یونیورسٹی ہاسپٹل باسل، سوئٹزر لینڈ کے ایک جلدی امراض کے ماہر ڈاکٹر پیٹر آئٹن نے ان کے مرض پر تحقیق کی اور انہیں معلوم ہوا کہ وہ اکیلی نہیں بلکہ ان کے خاندان کے نو افراد ڈرماٹوگلیفیا نامی بیماری میں مبتلا ہیں، جس کی وجہ سے پیدائشی طور پر ان کے فنگر پرنٹس نہیں ہیں۔
ڈاکٹر پیٹر نے اس بیماری کو دوسرا نام ’امیگریشن ڈیلے ڈیزیز‘ دیا۔ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ یہ شاید ایک جینیاتی بیماری ہے جو ان کے خاندان کے جینز میں کسی خرابی کے باعث پیدا ہوئی۔
یہ بھی پڑھیے: ڈی این اے تفصیلات اب تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہوں گی؟
پنجاب فارنزک لیب کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اشرف طاہر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے پاس بہت سے ایسے کیسز نادرا کی جانب سے تصدیق کے لیے آتے ہیں، جن میں جسٹس ناصرہ اقبال بھی شامل تھیں، جن کے فنگر پرنٹس عمر کے ساتھ ختم ہو چکے تھے۔
’ہم نے اس بات کی تصدیق کا خط نادرا کو لکھا تھا کہ ان کے فنگر پرنٹس ختم ہو چکے ہیں۔ اس طرح اور بہت سے لوگ جیسے مزدور یا سخت کام کرنے والوں کی تصدیق بھی نادرا والے ہم سے کرواتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر اشرف نے بتایا کہ ’سب انسانوں کے فنگر پرنٹس مختلف ہوتے ہیں، یہ ایک دوسرے سے میچ نہیں کر سکتے اور نہ انہیں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ میں کچھ ایسے ملزمان کو بھی پکڑا گیا ہے جنہوں نے اپنے فنگر پرنٹس ختم کرنے کی یا انہیں تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی مگر ایسا ممکن نہیں ہو سکا اور اگر آپ اپنے فنگر پرنٹس کو خود سے ختم کرنے کی کوشش کریں تو وہ پھر سے بن جائیں گے،‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ پیدائشی طور پر فنگر پرنٹس کا نہ ہونا ممکن ہے مگر ایسے لوگوں کی تعداد دنیا میں بہت کم ہے۔
فنگر پرنٹس نہ ہوں تو شناختی کارڈ کیسے بنے گا؟
نادرا کے ایک عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نادرا اُن لوگوں کے شناختی کارڈ بھی بناتا ہے جن کے ہاتھ یا بازو نہیں ہوتے، فنگر پرنٹس زیادہ تر ان لوگوں کے نہیں ملتے جو پانی میں زیادہ کام کرتے ہیں جیسے مچھیرے یا خواتین جو برتن یا ڈٹرجنٹ سے کپڑے وغیرہ دھوتی ہیں یا پھر وہ لوگ جو کسی کیمیکل بنانے والی یا کیمیکلز سے بننے والی اشیا کی فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’شناختی کارڈ کے لیے تصدیق کے اور بہت سے طریقے ہیں جیسے کہ شناختی کارڈ بنوانے والا خود موجود ہوتا ہے یا پھر ہم آنکھ کے ریٹینا (آنکھ کا پردہ) سے بھی تصدیق کر لیتے ہیں یا پھر والدین کے شناختی کارڈ سے پورا فیملی ٹری نکال لیتے ہیں اور بندے کی تصدیق ہو جاتی ہے۔‘