بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم ہونے کے بعد کرفیو کو آج دو ماہ ہوگئے ہیں۔ وادی میں تعلیمی ادارے، دکانیں اور بازار تا حال بند ہیں جبکہ انٹرنیٹ سمیت تمام ذرائع مواصلات کی معطلی کی وجہ سے کشمیریوں کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع ہے۔
پاکستان میں کئی کشمیری خاندان ایسے بھی ہیں جو کافی کوشش کے باوجود بھی بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مقیم اپنے رشتےداروں سے رابطہ کرنے میں ناکام ہیں۔ کراچی کی رہائشی ماہا علی کاظمی بھی ایک ایسی ہی خاتون ہیں، جن کا سری نگر میں رہنے والے اپنے رشتےداروں سے اب تک کوئی رابطہ نہیں ہو پایا ہے۔
ماہا پیشے کے اعتبار سے گلوگارہ ہیں، انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے والد کشمیری سٹیٹ سبجیکٹ ہیں اور سری نگر سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1963 میں ان کے والد اور دادا دادی سری نگر سے راولپنڈی منتقل ہوگئے تھے لیکن ان کا باقی خاندان اب بھی سری نگر میں ہی موجود ہے۔
ماہا نے بتایا کہ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ اب تک دو بار سری نگر جا چکی ہیں لیکن اس حسین وادی کی خوبصورت یادوں کے ساتھ ماہا کی کچھ تلخ یادیں بھی وابستہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 2013 میں جب انہوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کیا تو بھارتی فوجیوں نے ان کی گاڑی کو روک کر انہیں اور ان کے ساتھ موجود ان کی تین کزنز کو ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ ان کے ساتھ موجود واحد مرد رشتے دار کو بھارتی فوجیوں نے زبردستی گاڑی سے نکال لیا اور گاڑی میں موجود خواتین کو بغیر کسی خاتون کانسٹیبل کے باڈی چیکنگ پر مجبور کرنے لگے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماہا کا کہنا تھا کہ انہیں یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ وہ فوجی نشے میں تھے۔
جب ہم نے ماہا سے پوچھا کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں کرفیو سے پہلے وہ اپنے رشتے داروں سے کیسے رابطہ کرتی تھیں اور کرفیو کے بعد کیا ان کا رابطہ ہو پایا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ کرفیو سے پہلے وہ فون پر اور فیس بک یا وٹس ایپ کے ذریعے سری نگر میں اپنے رشتے داروں سے رابطے میں رہتی تھیں لیکن جب سے وہاں انٹرنیٹ اور باقی تمام مواصلاتی ذرائع معطل کردیے گئے ہیں، تب سے ان کا اپنے رشتےداروں سے کوئی رابطہ نہیں ہو پایا ہے۔
ماہا نے بتایا کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں چند مقامات پر فون بوتھ موجود ہیں، جن کے ذریعے بھارت کے دیگر شہروں میں یا دیگر ممالک میں کال کرنے کی اجازت ہے لیکن پاکستان یا پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں کال کرنے پر سخت پابندی ہے۔
ہم نے جب ماہا علی سے پوچھا کہ انہوں نے پہلے کبھی اس معاملے پر بات کیوں نہیں کی تو ان کا کہنا تھا: ’میں بہت غیر سیاسی ہوں اور پبلک فورم پر سیاسی معاملات کے حوالے سے بات کرنا مجھے پسند نہیں۔ پہلے میں اس لیے اس حوالے سے بات نہیں کرتی تھی کیوں کہ مجھے ڈر لگتا تھا کہ کہیں مجھ پر بھارت کے زیر انتظام کشمیر جانے اور اپنے رشتے داروں سے ملنے پر پابندی نہ لگا دی جائے۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کہیں میرے رشتے داروں کو تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے، لیکن اب اس کرفیو کو 50 دن سے زائد ہوگئے ہیں، اگر میں اب بھی آواز نہیں اٹھاؤں گی تو یہ زیادتی ہوگی۔‘