لاہور کی رہائشی 28 سالہ رابعہ حماد گذشتہ چھ برس سے عروسی ملبوسات تیار کرنے کا کام کر رہی ہیں۔ وہ 18 برس کی تھیں جب ان کی شادی ہوگئی، یہی وجہ تھی کہ وہ انٹر سے زیادہ نہ پڑھ سکیں اور 20 برس کی عمر میں ایک بیٹے کی ماں بن گئیں۔
زندگی اچھی گزر رہی تھی مگر پھر اُن کے ہاں ایک اور بچے کی خوشخبری آئی مگر وہ بچہ دنیا میں نہ آسکا، جس کی وجہ سے رابعہ ڈپریشن میں چلی گئیں۔ ابھی وہ اس ڈپریشن سے باہر ہی نہیں نکلی تھیں کہ ان کے شوہر کو کاروبار میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور گھر کے مالی حالات خراب ہو گئے۔
رابعہ کو بچپن سے ہی آرٹس کا شوق تھا اور وہ کپڑے بھی ڈیزائن کرتی تھیں۔ بس پھر کیا تھا، انہوں نے اپنے دوست احباب اور عزیزو اقارب کے کپڑے ڈیزائن کرنے شروع کیے، جس سے انہیں مالی طور پر کچھ فائدہ ہوا مگر وہ اتنا نہیں تھا کہ گھر اچھی طرح چل سکتا۔ پھر ان کی بہن نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اسے باقاعدہ طور پر ایک کاروبار کی طرح کیوں نہیں شروع کرتیں؟
رابعہ نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ شروع سے ہی بہت ڈرپوک اور گھر کے اندر رہنے والی خاتون تھیں۔ رابعہ نے گھر بیٹھے ہی فیس بک پر ’رابیز کوٹیور‘ کے نام سے ایک پیج بنایا اور اس پر اپنے ڈیزائن کیے ہوئے کچھ کپڑوں کی تصاویر بھی لگا دیں جسے لوگوں نے پسند کرنا شروع کیا اور پھر پیج بننے کے چند روز بعد ہی انہیں ان کا پہلا آرڈر ملا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ عمان کی ایک خاتون تھیں جنہیں کچھ کام والے کپڑے بنوانے تھے اور اس کے بعد رابعہ کو آرڈرز ملتے چلے گئے۔ انہیں ایک ایسے عروسی جوڑے کا آرڈر بھی ملا جو بہت بھاری تھا اور اسے بنانے کے لیے ان کے پاس صرف 18 دن تھے۔ رابعہ نے بتایا کہ ’پہلے تو مجھے لگا کہ یہ مجھ سے نہیں ہوگا مگر پیسوں کی ضرورت تھی اس لیے میں نے یہ آرڈر پکڑ لیا اور آرڈر دینے والوں نے نہ صرف جوڑا پسند کیا بلکہ مجھے مزید آرڈرز بھی دلوائے۔‘ رابعہ نے آہستہ آہستہ اپناکام بڑھایا اور کچھ سٹچنگ یونٹس کے ساتھ منسلک ہو گئیں۔
اپریل 2016 میں ایک دن رابعہ نے فیس بک پر ایک دوست کی پوسٹ پر صائمہ نامی ایک لڑکی کا میسج دیکھا جو عروسی جوڑوں کے حوالے سے معلومات حاصل کرنا چاہ رہی تھیں۔ رابعہ نے انہیں معلومات فراہم کر دیں، جس کے بعد ان کی آپس میں بات چیت شروع ہو گئی۔
رابعہ کو معلوم ہوا کہ صائمہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے سری نگر میں رہتی ہیں اور انہیں فوری طور پر ایک عروسی جوڑا بنوانا ہے کیونکہ انہوں نے جو عروسی جوڑا دہلی سے دو لاکھ روپے سے زیادہ مالیت میں بنوایا تھا وہ اچھا نہیں بنا تھا۔
رابعہ نے صائمہ کو کچھ جوڑوں کے ڈیزائن واٹس ایپ کیے جن میں سے ایک ڈیزائن صائمہ نے فائنل کرکے 22 اپریل تک جوڑا تیار کرنے کا کہہ دیا۔ یہ جوڑا نیلے اور گولڈن رنگ کا تھا۔ رابعہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 2016 میں اس جوڑے کی قیمت ایک لاکھ 29 ہزار روپے بنی۔ جوڑے پر کام شروع کر دیا گیا، لیکن جب پیسے بھیجنے کی باری آئی تو صائمہ نے رابعہ کو بتایا کہ کسی بھی ملک سے پیسے کشمیر تو آسکتے ہیں مگر یہاں سے پیسے بینک کے ذریعے کسی اور ملک بھیجنے کی پالیسی نہیں ہے۔
اسی دوران صائمہ کی ملاقات کپڑے فروخت کرنے والے ایک دکاندار سے ہوئی اور باتوں باتوں میں جب پیسے پاکستان بھجوانے کا ذکر ہوا تو انہوں نے صائمہ سے کہا کہ ان کا مال ایبٹ آباد سے آتا ہے اور وہ ہنڈی کے ذریعے ان کے پیسے پاکستان بھجوا سکتے ہیں اور اس طرح صائمہ نے رابعہ کو اپنے عروسی جوڑے کے پیسے بھیجے، جس کی پہلی قسط 30 ہزار روپے رابعہ کو 26 اپریل کو ملے اور اسی طرح دو سے تین دن کے وقفے سے انہیں چار قسطیں موصول ہوئیں۔
صائمہ کا عروسی جوڑا دو مئی کو تیار ہوگیا اور اب اسے سری نگر بھیجنا تھا۔ رابعہ نے ایک مقامی کوریئر سروس سے رابطہ کیا، جنہوں نے ایک بین الاقوامی کوریئر سروس کے ذریعے صائمہ کا عروسی جوڑا اور تحفے کے طور پر بنائے گئے گوٹے کے کچھ زیورات لاہور سے چار مئی کو سری نگر روانہ کر دیے جو چار سے پانچ دن میں پہنچ جانے تھے، مگر ایسا نہیں ہوا۔
رابعہ نے بتایا کہ صائمہ کی شادی 11 مئی کی صبح تھی اور ان کا جوڑا سات مئی کو ممبئی میں روک لیا گیا اور تفتیش شروع کردی گئی کہ یہ جوڑا کیوں، کہاں سے اور کس کے لیے آیا ہے۔ رابعہ نے کوریئر کمپنی کو رابطہ کیا کہ وہ دہلی والوں پر زور ڈالیں کہ یہ جوڑا جلد از جلد سری نگر پہنچائیں کیونکہ شادی میں دو دن رہ گئے تھے۔ رابعہ بار بار کوریئر والوں کے ہیڈ آفس ای میل کرتی رہیں اور آخر کار دس مئی کی رات جوڑا دلہن کے گھر پہنچ گیا، جس کے صائمہ کو الگ سے تین ہزار روپے مزید ادا کرنے پڑے۔
یہ سب خواری تو اپنی جگہ لیکن جوڑا صائمہ کو بے حد پسند آیا اور انہوں نے بعد میں رابعہ کو بتایا کہ شادی میں آئے ہوئے مہمان جوڑے کو ہاتھ لگا لگا کر پوچھتے رہے کہ یہ کہاں سے بنوایا ہے؟ اور جب انہیں معلوم ہوا کہ پاکستان سے تو سب حیران رہ گئے۔
رابعہ کا کہنا ہے کہ صائمہ اس کے بعد کافی عرصے تک ان کے ساتھ واٹس ایپ پر رابطہ میں رہیں مگر اب کچھ عرصہ سے ان سے کوئی بات چیت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کچھ عرصے سے صائمہ تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے آف لائن ہیں اور شاید اس کی وجہ کشمیر کے حالات ہیں جس کی وجہ سے انہیں فکر بھی ہوتی ہے اور وہ دعا گو ہیں کہ صائمہ جہاں بھی ہوں خیریت سے ہوں۔
رابعہ کہتی ہیں کہ جب چھ برس پہلے انہوں نے گھر سے یہ کام شروع کیا تو وہ ایک ڈری، سہمی سی خاتون تھیں مگر اب وہ نہایت پُر اعتماد ہیں۔ ان کے زیادہ تر آرڈرز بیرونِ ملک سے آتے ہیں جنہیں وہ عروسی ملبوسات اور زیورات ڈیزائن کرکے بھیجنے کے علاوہ شادی بیاہ اور مہندی جیسی رسومات میں استعمال ہونے والی تزئین و آرائش کا سامان بھی ارسال کرتی ہیں۔
رابعہ کے مطابق ان کی اس کامیابی کے پیچھے ان کے شوہر اور سسرال والوں کا تعاون ہے جس کے سبب وہ نہ صرف اپنے خاندان کو مالی طور پر سپورٹ کرسکیں بلکہ انہوں نے اپنی ایک پہچان بھی بنالی ہے۔