اس حقیقت کی ایک حیرت انگیز ستم ظریفی یہ ہے کہ جو شخص ایسے بیویاں تبدیل کرتا تھا جیسے کہ وہ آٹو لیز پر ہوں، ان کے مواخذے کی قیادت 79 سالہ پینٹ سوٹ پہنے ہوئے ایک خاتون کر رہی ہیں اور دوسرا شخص جس نے پارلیمنٹ معطل کرنے کے لیے ملکہ کو گمراہ کیا تھا، انہیں بروچ پہننے ایک 74 سالہ خاتون کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے۔
جی ہاں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بڑی عمر کی خواتین کے ہاتھوں ایسی دشوار صورتحال کا سامنا ہے جس سے نکلنے کے امکانات محدود ہیں۔
یہ صورتحال کسی فلمی کہانی کے اہم موڑ کی طرح کامل دکھائی دیتی ہے جب بحر اوقیانوس کے دونوں کناروں پر آباد دونوں ملکوں کے طاقتور حکمرانوں کو تاریخی طور پر پسماندہ گروہ تصور کیے جانے والے طبقے اور 70 سال سے بڑی خواتین کے ذریعے روکا جا رہا ہو۔
امریکہ میں ہمارے صدر کے مواخذے کی سربراہی ٹرمپ کی پہلی بیوی سے 10 سال بڑی عمر کی ایک خاتون کر رہی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو ہلیری کلنٹن سے نفرت ہو سکتی ہے لیکن انہیں نینسی پیلوسی سے خوفزدہ ہونا چاہیے۔ نینسی کانٹوں سے خوف ذدہ نہیں ہیں۔ انہوں نے ایک بار سرحدی دیوار سے متعلق ٹرمپ کے جنون کے بارے میں کہا تھا: ’یہ ان کے لیے مردانگی کی طرح ہے- گویا مردانگی کبھی ان سے وابستہ ہوسکتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اور تب سے ٹرمپ، پیلوسی کی توجہ کا مرکز ہیں۔ اگر ہلیری جیت جاتیں تو وہ ریٹائر ہو چکی ہوتیں لیکن چونکہ ٹرمپ صدر ہیں، اس لیے انہوں نے ایوان نمائندگان کی قیادت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ صدر سے جواب طلبی کی جاتی رہے۔
پیلوسی نے ٹرمپ کے مواخذے کے لیے سست روی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس سے صدر کو تھوڑا گھبرانا چاہیے کیوں کہ وہ ووٹ کاؤنٹر کے لیے بدنام ہیں۔
درمیانی مدت کے انتخابات جیت کر ایوان میں پہنچنے والے ڈیموکریٹس جنوری سے ان پر مواخذے کی کارروائی شروع کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ٹرمپ جو زیادہ شور مچاتے ہیں اور بڑی غلطیاں کرتے ہیں، پیلوسی بس ان کے بچکانہ پن پر مسکرا دیتی ہیں۔ لیکن پیلوسی جو 17 بار اس عہدے کی مدت پوری کر رہی ہیں، نے بہت سارے مرد قانون سازوں کو برا برتاؤ کرتے ہوئے دیکھا ہے اور وہ شرارتی بچوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں کیوں کہ وہ خود بھی پانچ بچوں کی ماں ہیں۔
ہاں نینسی پیلوسی اُن عمر رسیدہ خواتین میں شامل ہیں جن سے صدر کو ڈرنا چاہیے۔ وہ اس قدر قابل قانون ساز ہیں جس کی صدر کی انتظامیہ میں شدید کمی ہے۔
بحر اوقیانوس کے اُس پار ایک اور ’جھوٹے نبی‘ کو 70 سال سے بڑی عمر کی خاتون نے اذیت پہنچائی ہے۔
اور یہ جوڑ اُس وقت مزید حیرت انگیز ثابت ہو جاتا ہے جب اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے اور سونے کے چمچ کے ساتھ پیدا ہونے والے بورس کو خود سے 20 سال بڑی اور خود برداختہ خاتون کے ہاتھوں احتساب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ 74 سالہ خاتون لیڈی ہیل ہیں جو اس وقت برطانوی سپریم کورٹ کی صدر ہیں۔ وہ بھی امرا کی دنیا کی مخالف سمت سے تعلق رکھتی ہیں۔
دی گارجین کی ایک پروفائل رپورٹ کے مطابق لیڈی ہیل نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ایک پب میں کام کیا تھا اور اپنے خیراتی سکول سے کیمبرج یونیورسٹی تک پہنچنے والی پہلی خاتون تھیں۔
کیا آپ کو یاد ہے جب ٹرمپ نے ان کی تذلیل کرنے کے لیے اے او سی کو شراب پیش کرنے والی کہہ کر مخاطب کیا تھا؟
اس طرح کے شخص کے لیے اس سے زیادہ خوفناک اور کوئی چیز نہیں ہے جو محنت اور مشقت کے ذریعے سربلندی حاصل کرنے والی خاتون سے خائف ہو۔
لیڈی ہیل نے سپریم کورٹ میں وزیراعظم بورس کی اپیل مسترد کرتے ہوئے عدالت کا فیصلہ پڑھ کر سنایا تھا۔
انہوں نے وزیراعظم بورس کی جانب سے پارلیمنٹ کو معطل کرنے کے لیے ملکہ الزبتھ دوم کو گمرہ کرنے پر برطانوی وزیراعظم کے لیے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا تھا: ’ہماری جمہوریت کے بنیادی اصولوں پر اس کے انتہائی اثرات مرتب ہوں گے۔‘
پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والی لیڈی ہیل کے فیصلے کو اب ملکہ برطانیہ بھی تبدیل نہیں کرسکتیں۔
امریکہ اور برطانیہ غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں جہاں دونوں ممالک کو بے رحم اور بے وقوف قیادت نے یرغمال بنا رکھا ہے لیکن اب ان کا مقابلہ اُن خواتین کے ساتھ ہے جن کو وہ بے توقیر سمجھتے تھے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ٹرمپ کی دنیا دولت میں ڈوبی ہوئی ہے، ایسے میں شاید ان عمر رسیدہ خواتین کا مزاحمت کے ہیرو کے طور پر ابھرنا انتہائی اہم ہے۔
© The Independent