افغان طالبان نے کابل میں حکام کے اس بیان کی تردید کی ہے جس میں انہوں نے نیٹو کے ساتھ ایک مشترکہ کارروائی میں القاعدہ کے سینیئر رہنما عاصم عمر کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا۔
طالبان ترجمان قاری محمد یوسف احمدی نے ایک مختصر بیان میں کسی القاعدہ کے رکن کی ہلاکت کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ ہلمند کے موسی قلعہ علاقے میں حملہ ایک شادی کی تقریب پر ہوا تھا جس میں بقول ان کے عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
افغانستان کے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ عاصم عمر کے ساتھ چھ دوسرے جنگجو بھی مارے گئے جن میں سے اکثر پاکستانی تھے۔ ان میں عاصم کی طرف کی ایمن الظواہری کو پیغام رسانی کرنے والے ریحان بھی شامل ہیں۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغانستان میں موجود امریکی فوج نے اس پر تبصرے سے انکار کر دیا ہے۔
عاصم عمر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ القاعدہ کی برصغیر کی شاخ کے سربراہ تھے۔
عاصم عمر کا تعلق بھارت سے تھا، تاہم وہ پاکستان آ گئے تھے اور اس کے بعد تحریک طالبان پاکستان سمیت مختلف شدت پسند تنظیموں سے وابستہ رہے۔ انہوں نے جہادی نظریات کے بارے میں کئی کتابیں بھی تحریر کیں۔
2014 میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری نے ایک ویڈیو پیغام میں انہیں اس عہدے پر تعینات کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2014 میں القاعدہ برصغیر شاخ کی سربراہی کے لیے جب ادھیڑ عمر کے عاصم عمر کا انتخاب کیا گیا تو اس وقت وہ نسبتاً غیر مقبول تھے۔ اس جہادی شاخ کے قیام کا مقصد بھارت، بنگلہ دیش اور میانمار میں جنگجو تیار کرنا تھا۔
ایک افغان طالبان ذریعے نے کہا ہے کہ القاعدہ سے وابستہ ہونے سے پہلے 2014 میں عاصم عمر نے پنجابی طالبان کے ساتھ چند برس تک کام کیا۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سرگرم تنظیم کو پنجابی طالبان کا نام دیا گیا تھا۔
عمر ایک عرفیت ہے جو ایمن الظواہری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں دی تھی۔ پاکستانی خفیہ ادارے کے ایک عہدیدار نے کہا ہے کہ عاصم عمر نے شام کا سفر کیا تھا اگرچہ اس کی تصدیق کرنا ممکن نہیں ہے۔
افغانستان سے امریکی فوج واپسی کے تعطل کے شکار منصوبے کے تحت جس پر امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے، امریکی حکومت نے فوج اس صورت میں افغانستان سے نکالنے پر اتفاق کیا تھا کہ جنگجو سلامتی کی ضمانتوں کی پاسداری کریں گے اور طالبان کے ساتھ روابط ختم کر دیں گے۔
امریکہ اور طالبان ایک سال سے کسی معاہدے پر پہنچنے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں جس کے تحت افغانستان میں امریکی فوج میں کمی کر دی جائے گی جبکہ تشدد میں کمی کا راستہ ہموار ہو گا لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کی جانب سے پرتشدد کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے گذشتہ ماہ مجوزہ معاہدے سے اچانک علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
مبصرین کو شک ہے کہ اگر معاہدے کو حتمی شکل دے بھی جاتی تو طالبان القاعدہ سے علیحدگی اختیار کریں گے۔
بیان کے مطابق ان افراد کو 23 ستمبر کو صوبہ ہلمند میں طالبان کے ایک کمپاؤنڈ میں ایک چھاپے کے دوران ہلاک کیا گیا تھا۔