سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ جس معاشرے میں عورت مرد کی ملکیت ہو، اس کے لیے تعلیم کے مواقع محدود ہوں، باہر کی دنیا سے اُس کے روابط بھی نہ ہوں اور وہ گھر کی چاردیواری میں قید ہو کر خاندان کے جانشین پیدا کرنے کے فرائض سر انجام دے اور معاشی طور پر مرد کی محتاج ہو، تو اس صورت حال میں عورت کا سماجی درجہ گِر جاتا ہے۔
ایسے ماحول میں امرا اور جاگیرداروں کے لیے طوائف کی حیثیت بڑھ جاتی ہے جہاں وہ ذہنی طور پر اُس کے ساتھ مل کر تفریح حاصل کرتے ہیں اور اپنی جنسی ناآسودگی کو دور کرتے ہیں۔ مردوں کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے طوائف تعلیم حاصل کرتی ہے، ادب آداب میں نفاست پیدا کرتی ہے، رقص اور موسیقی میں مہارت حاصل کرتی ہے، عمدہ شعری ذوق پیدا کرتی ہے تاکہ برمحل اشعار پڑھ کر سامعین کو متاثر کر سکے۔
جاپان کے جاگیردارانہ کلچر میں یہی کردار وہاں گیشیا عورت سر انجام دیتی تھی۔
لکھنو کے نوابی عہد میں لکھنو کی طوائف تہذیب و تمدن کی علامت بن گئی تھی۔ لکھنو کے حکمراں اور امرا ان کی سرپرستی کرتے تھے جس کی وجہ سے یہ بے انتہا دولت مند ہو گئی تھیں۔ قیمتی جائیداد کے علاوہ ان کے پاس سونے چاندی کے زیورات، ہیرے موتی اور پُرتکلف ملبوسات کی کمی نہ تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد باقر شمس نے اپنی کتاب ’تاریخ لکھنو‘ میں طوائفوں کے بارے میں لکھا ہے کہ ’لکھنو کی طوائفیں تہذیب، سخن سنجی حسن و جمال اور کمالِ فن میں مشہور تھیں۔ ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ ہر مشہور یا خاندانی طوائف صاحبِ جائیداد اور دولت مند تھی اس وجہ سے معمولی آدمی بھی ان کے یہاں جاتے تھے۔
’بعض شعرا سے بھی ان کے روابط تھے، کیونکہ وہ خود شعر کہتی تھیں اور شعرا کی قدردان تھیں ۔ ۔ ۔ رئیس زادے پہلے سے اطلاع کر دیتے تھے کہ ہم فلاں دن، فلاں وقت آئیں گے۔ اس دن اگر کسی اور سے وعدہ نہ ہوا تو وہ کہتیں، ’زہے نصیب کہ سرکار کنیز کو سرفراز فرمائیں،‘ اور وہ جب تشریف لاتے تو سرو قد تعظیم کے لیے کھڑی ہو جاتیں اور کمر تک جھک کے سات سات تسلیمیں بجا لاتیں، اپنی جگہ سے ہٹ کے انہیں صدر میں مسند پر بٹھاتیں اور خود دوسری طرف فرش کے کونے پر بیٹھتیں۔
’پاندان اُٹھا کے ان کے آگے رکھ دیا جاتا، وہ پان لگا کے خاصدان میں دونوں ہاتھوں پر رکھ کے پیش کرتیں اور اگر گانے کی فرمائش کی تو سازندے آتے اور جھک جھک کر تسلیمیں کر کے بیٹھ جاتے۔ گانا شروع ہوتا، تعریف پر اٹھ اٹھ کر تسلیمیں کرتیں۔ یہ گھنٹہ آدھ گھنٹہ کی صحبت ہوتی جس میں سینکڑوں روپیہ ان کو انعام میں مل جاتا۔ سرشام سے چوک میں ہجوم ہو جاتا اور سازوآہنگ کی آوازوں سے فضا گونج اُٹھتی۔‘
صورت حال میں اس وقت تبدیلی آئی جب 1856 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اودھ کی ریاست کو ختم کر کے واجد علی شاہ کو جلاوطن کر دیا۔ اس کی وجہ سے لکھنو کی طوائفیں نہ صرف شاہی سرپرستی سے محروم ہو گئیں بلکہ جاگیردار اور تعلقہ دار بھی مالی طور پر دولت مند نہ رہے۔
اس کی وجہ سے طوائفوں کی شان و شوکت والی زندگی متاثر ہو گئی۔ پھر 1857 میں جب انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت ہوئی اور حضرت محل نے لکھنو میں کمپنی کے خلاف محاذ قائم کیا تو طوائفوں نے بھی باغیوں کی مالی مدد کی۔ اس کی ایک وجہ حب الوطنی تو تھی ہی لیکن مادی وجہ یہ تھی کہ وہ بھی حکومت کی پالیسی سے متاثر ہوئی تھیں۔
یہی سبب ہے کہ بغاوت کے خاتمے کے بعد حکومت نے ان کی جائیدادیں ضبط کر لیں، جس کی وجہ سے اُن کی سابقہ حیثیت ختم ہو گئی اور طوائفوں کا کوٹھا جو تہذیب و فنون لطیفہ کا مرکز تھا، اس کا خاتمہ ہو گیا۔
دہلی کی طوائفوں کے بارے میں ہماری معلومات کا انحصار درگاہ خان قلی کی کتاب ’مرقع دہلی‘ ہے جو 1738 میں دکن کے حکمراں آصف جاہ کے ہمراہ دکن سے دہلی آئے تھے۔ یہ محمد شاہ مغل بادشاہ کا عہد حکومت تھا۔
اس کتاب میں قلی نے دہلی کی سوسائٹی کا مشاہدہ کرتے ہوئے اس کی طوائفوں کے بارے میں بھی دلچسپ مرقع پیش کیا ہے۔ اس سے اٹھارہویں صدی کے دہلی کے کلچر کا اندازہ ہوتا ہے۔
درگاہ قلی خاں نے دہلی کی مشہور طوائف ’نور بائی‘ کا ذکر کیا ہے جس کو دیکھنے کے لیے امرا مشتاق رہتے تھے اور اگر انہیں دیدار نصیب ہوتا تو اس کے عوض بھاری رقم تحفے کے طور پر ادا کی جاتی تھی۔ نور بائی خود بڑی شان سے رہتی تھی۔ جب گھر سے باہر جاتی تھی تو سواری کے لیے ہاتھی استعمال کرتی تھی اور اُس کے ملازموں کی بڑی تعداد جلوس کی شکل میں اُس کے ساتھ چلتی۔ جس امیر کے گھر جاتی وہ بطور رونمائی اُسے قیمتی ہیرے جواہرات پیش کرتا اور رخصتی پر بھی اسے تحفوں سے نوازتا۔
نور بائی طوائف کے بارے میں درگاہ قلی خاں لکھتے ہیں کہ ’بیگم دہلی میں مشہور و معروف ہے۔ کہتے ہیں کہ پاجامہ نہیں پہنتی اور بدن کے نچلے حصے کو نقوش کے قلم کی رنگ آمیزی سے پاجامے کی کاٹ کے مطابق رنگین کر لیتی ہے۔ کمخواب کے بند رومی تھان میں چھپے گل و برگ سے ذرا بھی مختلف نہ ہونے دیتے ہوئے قلم سے بنا لیتی ہے۔ امراکی محفلوں میں جاتی ہے۔ پاجامے اور اس کے رنگ میں ذرا بھی فرق نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک پردہ خود نہ اُٹھائے، کسی کا فہم اس صنعت کو سمجھ نہ پاتا۔ چونکہ ندرت اور اچنبھے سے خالی نہیں ہے اس لیے دلوں کو اُس کی یہ ادامرغوب ہے۔‘
دوسری طوائف مہیناری فیل سوار ہے جس کے بارے میں درگاہ قلی کا کہنا ہے کہ اُس کے تعلقات دہلی کے خاندان امرا سے ہیں جو اس کی خوشنودی کے لیے بیش قیمت تحفے دیا کرتے ہیں۔ دہلی کے مشہور امیر اعتماد الدولہ نے آلات مے کشی دیے اور شراب پینے کے لیے قیمتی پیالے پیش کیے جن میں ہیرے جواہرات جڑے ہوئے تھے۔ ان کی مجموعی قیمت 70 ہزار روپے تھی جو آج کے کروڑوں بنتے ہیں۔
دوسری طرف ایک اور طوائف کالی گنگا تھی جو گانا گانے اور رقص میں مہارت رکھتی تھی، اس لیے ہر محفل میں اُس کے قدردان ہوتے تھے اور اُس کی قربت کے خواہش مند رہتے تھے۔
ان مشہور طوائفوں کے بعد درگاہ قلی خاں نے دوسری طوائفوں کا ذکر بھی کیا ہے جن کا سماجی رتبہ نسبتاً کم تھا اور جن کے کوٹھے متوسط طبقے کے لوگوں کی تفریح کا ٹھکانہ تھے۔ یہ طوائفیں فن موسیقی میں مہارت رکھتی تھیں۔ ان کے گانے اور رقص لوگوں کے لیے تفریح کا باعث ہوتے تھے۔ ان میں زینت، رمغانی، رحمان بائی، پنابائی، کمال بائی، اوصابائی اور نیاتنو کے نام قابل ذکر ہیں۔
درگاہ قلی خاں کے طوائفوں کے بارے میں بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی تبدیلیوں کے باوجود نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں کی تباہی نے یہ کلچر ختم نہیں کیا تھا۔ بادشاہ اور امرا کی مالی حالت ابھی تک اس قابل تھی کہ وہ اپنی دولت کو بے دریغ طوائفوں پر نچھاور کر سکتے تھے۔ دہلی میں بھی سیاسی صورت حال 1857 میں بدل گئی جب بغاوت کے خاتمے کے بعد دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہوا۔ بادشاہ بہادر شاہ ظفر جلاوطن ہوئے اور امرا اپنی مراعات سے محروم ہو کر عام لوگوں میں مل گئے۔
اس صورتحال میں طوائفوں کی سرپرستی بھی نہ رہی، ان کی پرانی حیثیت زائل ہو گئی اور یوں ہماری تاریخی ثقافت کا یہ رنگین باب اپنے اختتام کو پہنچا۔