سوال: وفاقی اور صوبائی حکومتو ں کو ڈینگی وائرس سے نمٹنے کے لیے کون کون سے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے؟ تجاویز دیں۔
جواب: اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اکابرین قومی و صوبائی حکومت کو ڈینگی سے متاثرہ افراد کے ہسپتالوں پر دوروں کے تابڑ توڑ حملے کرنے چاہییں۔ میڈیا کی موجودگی میں متاثرین ڈینگی کی عیادت کے وقت مگر مچھ کے آنسو بہانا اور ڈاکٹروں کو سخت ہدایات دینا اضافی موثر اقدامات ہیں۔
حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی تقاریر کی توپوں کا رخ ڈینگی مچھر کی طرف موڑ کر اس دشمن کی کمر اسی طرح توڑ دیں، جیسے وہ مہنگائی کی توڑ چکے ہیں۔ تاہم حکمرانوں کا پختہ ایمان ہونا چاہیے کہ اس نوع کی ارضی و سماوی آفات بھوکے اور ننگے عوام کی بد اعمالیوں اور گناہوں کی وجہ سے نازل ہوتی ہیں۔ لہٰذا معاملہ اس گناہگار قوم اور مالک ارض و سما کے درمیان ہے اور وہی ان کی حقیقی مدد کو آئے گا۔
پس ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتیں ایسی قدرتی آفات کے خلاف ٹھوس عملی اقدامات کر کے قانون قدرت میں دخل اندازی نہ کریں اور ڈینگی مچھر کے قتل عام جیسے اقدامات سے باز رہیں ۔ یاد رہے کہ زلزلے، سیلاب یا ڈینگی مچھر جیسے مسائل محض وقتی ہوتے ہیں، جو چند ہزار لوگوں کی جان لے کر خود ہی غائب ہو جاتے ہیں۔ اگر حکمران جذباتی نہ ہوں اور صبر اور ایمان کا دامن نہ چھوڑیں تو انشاء اللہ بہت جلد ڈینگی مچھر بھی اڑن چھو ہو جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سوال: آپ نے پانچ اکتوبر کو اساتذہ کا عالمی دن کس طرح منایا؟
جواب: میں نے استادوں کا عالمی دن تعمیری جذبے اور جوش و خروش سے منایا۔ میں پانچ اکتوبر کی صبح موٹر مکینک اُستاد فیکا، کمانی میکر استاد بھولا، معروف پینٹر استاد فلکا اور مشہور ڈینٹر استاد کالا کی ورکشاپوں پہنچا اور چاروں اساتذہ کی خدمت میں گلدستے پیش کیے۔
سلام ٹیچر ڈے کی اس چمکتی دوپہر میں لاری اڈے پر گیا اور تمام کوچز کے استادوں کو دونوں ہاتھ جوڑ کر سلام کیا، جنہوں نے اپنی اپنی گاڑیوں کے پریشر ہارن بجا کر میرا شکریہ ادا کیا۔ وہیں فٹ پاتھ پر طوطا فال نکالنے والے ایک پروفیسر بھی تشریف فرما تھے۔ میں نے لگے ہاتھوں ان کے ساتھ بھی اظہارِ یکجہتی کر ڈالا۔
سہ پہر کے وقت میں نے استاد امامؔ دین گجراتی کی قبر پر حاضری دی اور پھولوں کی چادر چڑھائی۔ رات کو میں مقامی سینما میں اساتذہ پر بننے والی فلم ’استادوں کے استاد‘ کا آخری شو دیکھنے چلا گیا۔ واپسی پر میں رات گئے استاد بگے کے خفیہ اڈے پر گیا مگر استاد کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا سودا طے کرنے کے دوران وہاں پولیس کا چھاپہ پڑ گیا۔ میں تو اڈے کی عقبی دیوار پھلانگ کر فرار ہو گیا، جبکہ باقی خواتین و حضرات اور استاد آج ہی ضمانت پر جیل سے رہا ہوئے ہیں۔ پولیس کو کم از کم استادوں کے عالمی دن کے موقع پر ایسی نیچ حرکت نہیں کرنی چاہیے تھی۔
سوال: ورثے میں ملنے والے مسائل کی تعریف کریں۔ ہر حکومت کو مسائل ورثے ہی میں کیوں ملتے ہیں، وہ خود کیوں نہیں پیدا کر لیتی جبکہ اس کے پاس وزیروں اور مشیروں کی پوری فوج موجود ہوتی ہے؟
جواب: ہماری ہر حکومت آنے والی حکومت کے لیے نیک نیتی سے کئی مسائل چھوڑ کر جاتی ہے۔ مثلاً تباہ حال معیشت، مہنگائی، لاقانونیت، دہشت گردی، بے روزگاری، غربت اور لوڈ شیڈنگ وغیرہ۔ اس کار خیر کے پیچھے یہ حکمت کار فرما ہوتی ہے کہ نئی حکومت کے اکابرین کی مصروفیت کا کچھ ساماں کیا جائے تاکہ وہ فارغ بیٹھ کر ہڈ حرامی کا شکار نہ ہو جائیں۔ ان مسائل کو ورثے میں ملنے والے مسائل کہا جاتا ہے۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ آخر حکومتوں کو مسائل ورثے ہی میں کیوں ملتے ہیں؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اگر ورثے میں نہ ملیں تو کیا نئے حکمران مسائل گھر سے جہیز میں لے کر آیا کریں؟
سوال کے آخری حصے کا جواب بھی بڑا آسان ہے کہ دوران حکومت یہ فوج (مراد وزیروں، مشیروں کی فوج ہے) اپنے لیے ’وسائل‘ پیدا کرنے کے چکر میں رہتی ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہماری فوج (پھر مراد وزیروں، مشیروں کی فوج ہے ) مسائل پیدا ہی نہیں کر سکتی۔ در حقیقت وسائل پید ا کرنے کے عمل کے رد عمل میں مسائل خود کار طریقے سے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ نیز ورثے میں ملنے والے مسائل حل کرنے کے سلسلے میں فوج (یہاں بھی مراد وزیروں، مشیروں کی فوج ہے) جو ’لکی ایرانی سرکس‘ لگاتی ہے، اس سے بھی نئے نئے مسائل جنم لیتے ہیں، جنہیں یہ فوج (مراد آپ سمجھ گئے ہوں گے) آنے والی حکومت کے لیے چھوڑ کر رخصت ہو جاتی ہے۔
سوال: ضمیر کی تعریف کریں۔ ضمیر کی خلش کیا بلا ہے؟ مختصر نوٹ لکھیں۔
جواب: ضمیر کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ وہ ہمارے شہر ڈیرہ بجلی چوراں کا مشہور موٹر مکینک ہے۔ اپنے شعبے میں مہارت اور ملنساری جیسی خصوصیات کی بنا پر گاڑیوں کا یہ ڈاکٹر ہر دلعزیز ہے۔ وہ لوگوں کے دکھ سکھ میں خلوص سے شریک ہوتا ہے اور نادار اور غریب خواتین کی گاڑیاں مفت ٹھیک کر دیتا ہے۔ استاد ضمیر کو خلش یہ ہے کہ آج کل جس لڑکی کے ساتھ اس کا چکر چل رہا ہے، اتفاق سے وہ بھی استاد کی طرح ’ملنسارانہ چال چلن‘ کی حامل ہے اور اس کے کئی اور سکینڈلز بھی زبان زدِ عام ہیں۔
استاد اب تک اس بے وفا کو لگ بھگ 20 ہزار روپے کا ایزی لوڈ کروا کے دے چکا ہے، مگر حرام ہے جو اس نے کبھی ضمیر کو ایک کال بھی کی ہو۔ لڑکی کا فون مصروف رہتا ہے اور استاد پریشان ہے کہ آخر وہ اس کی طرف سے بھیجے گئے بیلنس سے کس منحوس کو کالیں کرتی ہے؟ بس یہی ایک خلش استاد ضمیر کو بے چین رکھتی ہے، باقی اس پر اللہ کا بڑا کرم ہے۔
سوال: کھانے کے آداب پر مختصر نوٹ لکھیں۔
جواب: کھانے کے آداب یہ ہیں کہ کھانا ہاتھ دھو کر کھانا چاہیے۔ کچھ لوگوں نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ کھانے کے آداب لوگوں کے حقوق اور قومی وسائل کھانے کے سلسلے میں بیان کیے گئے ہیں۔ پس وہ اپنے اس پسندیدہ کھانے کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں۔ کھانے کے درمیان میں پانی پینا بھی ضروری ہے۔
ایک مکتبہ فکر کا خیال ہے کہ ’کھانے‘ کے درمیان میں وقفہ کر کے حج و عمرہ بھی کرنا چاہیے تاکہ پچھلے گناہ بخشوائے جا سکیں اور واپس آ کر کھانے کا سلسلہ وہیں سے شروع کیا جا سکے، جہاں سے ٹوٹا تھا۔ کھانے کے آغاز میں بسم اللہ پڑھنا بھی اس کے آداب میں شامل ہے۔ کچھ لوگوں کو ’کھاتا‘ دیکھ کر خیال آتا ہے کہ انہیں ’کھانے‘ کے اختتام پر استغفار بھی پڑھنا چاہیے، شاید کہ بخشش ہو جائے۔