میاں دیس والو، یہ قصہ ہے دس اکتوبر 2019 کا۔ ہم لاہور سے امریکہ کو صبح پانچ بجے نکلے، ساڑھے چھ گھنٹے میں استنبول پہنچے، چار گھنٹے وہیں رُکے، اُس کے بعد جہاز پر بیٹھے اور 11 گھنٹے مزید اڑے لیکن جب نیویارک میں لینڈ کیا تو وہی دس اکتوبر 2019 کی شام تھی۔
یہ جادو ہماری تو سمجھ میں نہیں آیا کہ سفر میں تو پورے 22 گھنٹے چلے مگر تاریخ نہیں بدلی۔ میاں لوگو ہم امریکہ کی سمجھ میں اِس لیے نہیں آتے کہ اُن سے پورا ایک دن آگے چل رہے ہیں یا وہ ہمارے پیچھے ہیں۔
اچھا اب اصل قصے کی طرف آتے ہیں۔ لاہور سے نکلے تھے تو بہت پریشان تھے جانے کیا بنے۔ کچھ دوستوں نے ڈرایا، وہاں ایئر پورٹ پر آپ کو کافی دیر بٹھائیں گے، عجیب عجیب سوال کریں گے، ہو سکتا ہے وہیں سے واپس کر دیں کہ یہ مال ہمارے کام کا نہیں۔ کچھ نے کہا ننگا کرکے دیکھیں گے کہ کسی کام کا ہے یا نہیں؟ کوئی کہتا تھا گرین پاسپورٹ دیکھتے ہی اُن کی اَنا غالب آ جاتی ہے اور چپیڑیں مارنے کو دل کرتا ہے۔
مگر یہاں ایسا کچھ بھی نہ ہوا، بہت مایوسی ہوئی کہ ہم اپنے ملک میں ایسی جگہوں پر چند لمحوں میں اچھی خاصی جھاڑ پھانک لیتے ہیں مگر یہاں کوئی پھوٹے منہ بھی نہیں پوچھ رہا کہ میاں کہاں منہ اُٹھائے چلے جاتے ہو؟ ذرا اپنی صورت تو دکھاؤ۔
ہاں فقط یہ کیا کہ استنبول پر ایک جگہ جوتا ضرور اُتروایا اور اُس میں بھی اُس اللہ کے بندے نے اپنی توہین ایسے کی کہ اپنا پورا منہ جوتے میں گھسا دیا۔ پھر اُسی فرمانبرداری سے ہمارے پاؤں میں ڈال دیا۔
اب وہ مزے کی بات سنیے، جس کے واسطے سب تمہید باندھی ہے۔ جہاز میں ہمیں درمیان کی چار سیٹوں میں سے ایک ملی۔ ہم بیٹھ گئے اور دعا مانگنے لگے کہ اللہ میاں کوئی نیک دل، سفید صورت اور بد چلن سیرت بی بی ایسی ساتھ بٹھا دے کہ سفر کی تھکن نہ ہواور 11 گھنٹے محض ایک گھنٹہ لگے، بلکہ یہ دعا ہم تب سے مانگ رہے تھے جب سے ٹکٹ ملا تھا۔
ہم کلمے پڑھے جاتے تھے اور دعائیں مانگے جاتے تھے کہ عین اُسی وقت ایک ایسی خاتون ہمارے پہلو میں آکر بیٹھ گئی کہ کائنات میں اُس سے زیادہ کالی شے ہم نے نہیں دیکھی، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ تب ہمیں معلوم ہوا کہ دعا کے قبول ہونے کا تعلق دل کے اخلاص سے بالکل نہیں ہے ورنہ جتنی یہ دعا دل کے اخلاص سے مانگی تھی کوئی اور نہیں۔ گویا پورا افریقہ ہمارے پہلو میں بیٹھا تھا۔ یعنی جس قدر افریقہ کی کالک اور اُن کے حُسن کی تمثیل تھی۔ موٹے ہونٹ، لمبے کان، ڈوئی کی طرح ناک، سب کچھ اِس بی بی میں اجتماع تھا۔
اُس کے چند ہی لمحوں بعد ایک اورغضب ہو گیا کہ ایک سفید صورت بی بی، ناک نقشے کی درست، نک سک کی چست اُسی کے دوسری طرف آن بیٹھی۔ کچھ نہ پوچھیے ہم جی میں کتنا روئے کہ امریکہ کی فتح ایک سیٹ کی دوری پر رہ گئی تھی کہ درمیان میں افریقہ پڑ گیا۔ اگر ہمارے اور اِن کے درمیان رات نہ پڑتی تو کیسی اُجلی اُجلی صبح ہوتی یعنی ہم امریکہ کا چاند لُوٹ لے جاتے۔
اب آگے سُنیے اِن سیاہ تُوت صاحبہ نے پہلے تو اپنا پاؤں ہمارے پاؤں سے چھوا، پھر بازو سے بازو لگایا پھر ذرا اور بڑھی اور اپنا سر گویا ہمارے کاندھے سے چپکا کر سونے ہی کو تھی کہ ہم کاندھا دائیں طرف پھیر کر پیچھے ہٹ گئے کہ اب اتنا بھی اندھیر نہیں آیا ہوا۔
کالا ہونا کوئی بُری بات نہیں مگر غصہ ہمیں یہ تھا کہ ایک تو یہ بی بی ہمارے اور امریکہ کے درمیان ناسور بن کر بیٹھ گئیں اور اُس پر ہماری مردانہ طہارت کو للکار رہی ہیں۔ ہمارے دائیں جانب ایک اور صاحب بیٹھے تھے۔ اُن کے ہاتھ میں کافکا کے افسانوں کی کتاب تھی۔ ارے یہ تو بہت اچھا ہوا، کوئی ادیب، پروفیسر یا ادب کا اُستاد ہو گا۔
ہم نے اُن کی جانب ہنس کر دیکھا، وہ بھی ہنسے اور مکرر افسانہ پڑھنے میں لگ گئے، کچھ دیر بعد ہم دوبارہ ہنسے، وہ پھر ہنسا، تب ہم نے پوچھا: ’اوہ اچھا بھائی، کیا حال ہے، کہاں سے ہو؟‘
کہنے لگا: ’البانیہ سے ہوں۔‘ ہم بولے: ’یہ کافکا تو ہم نے بھی پڑھا ہوا ہے۔‘
یہ سُن کر وہ بہت خوش ہوا: ’اچھا آپ بھی البانیہ کے ہیں؟‘
ہم نے کہا ’نہیں، میاں کافکا کو البانیہ سے باہر بھی لوگ پڑھتے ہیں۔ ہم نے اِسے اردو میں پڑھا ہے۔‘
حیران ہوکر بولا: ’وہ کیسے، وہ اردو میں بھی لکھتا تھا؟‘
’ارے نہیں بھائی، ہمارے ایک دوست نے اِس کا ترجمہ کیا تھا۔ وہ ترجمہ پڑھا۔‘
’اچھا ویل۔‘ اب کے ہم نے کہا: ’ہم خود بھی افسانہ نگار اور ناولسٹ ہیں۔‘
اُس نے آگے سے ہلکا سا سر ہلایا۔ ’ہم خود بھی ترجمہ ہو چکے ہیں اور پینگوئن نے چھاپ رکھا ہے۔‘
ہماری اِس بات پر بھی وہ حیران نہ ہوا۔ اب کے ہمیں غصے نے آ لیا، پوچھا: ’آپ بھی لکھتے ہیں کیا؟‘
وہ بولا: ’نہیں مَیں کُک ہوں، ایک ہوٹل میں کھانا بناتا ہوں۔‘
ارے باپ رے، ہٹ تیرے کُک کی، تب ہی تو پہچان نہیں رہا ہمیں۔ یہ تو ایک طرف مگر ہم اُس سے مرعوب ضرور ہوئے کہ بھائی جن مُلکوں کے کُک بھی کافکا کو پڑھتے ہوں وہ مُلک ہمارے خانوں، شریفوں اور زرداریوں کو کیوں گھانس ڈالیں گے۔
ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ دائیں طرف کی دونوں بیبیاں ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑیں۔ سفید صورت گڑگڑا رہی تھی کہ یہ مجھے کُہنیاں مار رہی ہے، اِس کا بازو میرے بازو سے کیوں لگتا ہے۔ کالی کہتی تھی، یہ ڈیڑھ فٹ کی کرسی پر سے مَیں اپنا بازو آپ کے بازو سے کیسے بچاؤں۔ اس لڑکے کے ساتھ بھی تو میرا سب کچھ لگ رہا ہے، یہ تو نہیں بولتا۔
لڑائی طول کھینچتی گئی، بات پھیل کر گالی بننے لگی۔ دو بار جہاز کا عملہ بیچ میں پڑا اور اِس ہزاروں سال پرانے گورے کالے کا جھگڑا نمٹانے کی کوشش کی مگر دونوں اپنی ضد پر قائم تھیں۔ آخر تیسری بار گوری بی بی نے دل کی بات کہہ ہی دی۔ بولی: ’یہ کالی دوسری طرف ہو جائے اور وہ لڑکا (یعنی ہم) اُس کی طرف ہو جائیں۔‘
اِس بات کی ہم نے بھی فوراً تائید کی۔ جہاز کے عملے نے بھی یو این او کا کردار ادا کیا مگر افریقہ مان کر ہی نہ دے رہا تھا۔ کہنے لگی اصل میں یہ سب کچھ اِسی لڑکے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے ہی کر رہی ہے۔ آخر ہم خود اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور کہا: ’بی بی آپ ہمیں بھی تنگ کرتی ہیں اور اُسے بھی اور اپنی ضد سے نہیں ہٹتیں۔ ہٹو، ادھر آؤ ہماری سیٹ پر اور ہم اُس طرف جاتے ہیں۔‘
ہمارا اسلامی جذبہ سمجھیے یا کچھ اور، وہ اِس بات کی تاب نہ لا سکی اور فوراً اُٹھ کر ہماری سیٹ پر آ گئی۔ تب ہم اور امریکہ یعنی گوری صاحبہ پہلو بہ پہلو ہوئے۔ اب آگے بس اتنا ہی ہوا کے اگلے نو گھنٹے اِسی فکر میں رہے کہ کب یہ بی بی ہمارے کاندھے پر سر رکھ کر سوتی ہیں، کب ہمارے بازو سے بازو ملاتی ہیں مگر نہ یہ ہوا، نہ وہ ہوا۔ ظالمہ بُت بنی بیٹھی رہی، ایک دو بار ہم نے کسمسا کر اُس کے ساتھ نظریں بھی دوچار کیں مگر وہ سرد نظر رہی، ہاں مگر ہمارے بازو اور کاندھے اور لات سے لات لگنے پر اُس کو شکایت نہیں ہوئی۔ اللہ جانے اس میں کیا راز تھا۔
امریکن تھی، دایاں دکھا کر ہمیں بایاں مارنے کے چکر میں تھی کہ مَیں ذرا اور بڑھوں تاکہ وہ ایکشن میں آئے۔ مگر ہم کوئی عمران تھوڑی تھے، آخر ہم نے بھی اُس کی بے وفائی کو معاف کیا اور کھانا پینا کرکے سو رہے۔ جب اُٹھے جب امریکہ آ گیا۔ آنکھیں کھُلتے ہی اُس بی بی نے دوبارہ ہمیں ہنس کر دکھایا اور ہمارے منہ سے یہ بڑی سی گالی نکلتے نکلتے رہ گئی کہ جاتے جاتے پھر ہمیں اُلو بنانے کے چکر میں ہے۔
اُس سے بے نیازانہ ہو کر باہر نکلے۔ امیگریشن والوں سے ملے، اُنھوں نے ایک منٹ بھی تفتیش نہ کی۔ ہم نے دل میں جتنے جواب سوچ رکھے تھے کہ وہ یہ کہیں گے تو آگے سے یہ بتائیں گے، وہ سب بے کار گئے۔
اُنھوں نے کہا: ’امریکہ کیوں آئے ہو؟‘
ہم نے کہا: ’آپ کے یہاں شہر میڈیسن میں یونیورسٹی آف وسکانسن ہے، اُس کے پڑھنے پڑھانے والے کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے افسانے اور شاعری سنا دو۔ ہم چلے آئے۔‘
یہ سُنتے ہی امیگریشن والے بابو نے سینے پہ ہاتھ رکھا، ہمارا نام ایک ویب پر دیکھا اور اُٹھ کر ہاتھ ملایا اور کہا: ’آئیے صاحب، ویلکم۔‘
کتابوں کے دو بیگ اپنے بھر لائے تھے کہ یہ امریکیوں کو بیچ کر جائیں گے، وہ اٹھائے اور باہر نکل آئے۔ باہر احتشام قریشی صاحب لینے کو کھڑے تھے۔ یہ بھی کیا زندہ دل آدمی ہیں، دیکھتے ہی باغ و بہار ہو گئے۔ سامان گاڑی میں رکھا اور چل پڑے۔ اب یہ ہے کہ اِن کا فون مسلسل بجتا جاتا تھا اور اپنے سب دوستوں کو بتاتے جاتے تھے کہ ہاں ناطق کو پکڑ لیا ہے اور گھر لیے جا رہا ہوں۔
سعید نقوی، شہلا نقوی، حمیرا رحمان، سب کو بتا بتا کر خوش ہو رہے تھے جیسے کوئی مجرم دھر لیا گیا ہو۔ اب آگے بس یہ کہوں گا، یہ میاں احتشام کے قبضے میں ہوں، ایئرپورٹ سے گھر جاتے جاتے میری آدھی نظمیں سُن چکے ہیں، جیسے صدیوں کے یار بچھڑے ہوں۔ میری بہت ساری نظمیں اُنہیں خود بھی یاد تھیں، نثر ہماری بھی سب پڑھ رکھی تھی اور چار بار رستے میں کھانا کھلا چکے ہیں، کبھی کہتے ہیں یہ کھاؤ، کبھی وہ کھاؤ۔
رات ایک بجے اُن کے گھر پہنچے ہیں، گھر اُن کا کسی دوسری سٹیٹ میں ہے اور بڑا ہے اور یہ جگہ بہت خوبصورت ہے۔ سردی یہاں کچھ زیادہ ہے مگر اتنی کہ نبھا سکیں، آج تک تو اتنا ہی، آگے دیکھیے کیا دیکھتا ہوں۔