بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں 72 روز بعد موبائل فون سروسز جزوی طور پر بحال کر دی گئی ہیں تاہم متنازع خطے کے 70 لاکھ سے زیادہ افراد کے لیے اب بھی انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں۔
بھارت نے پانچ اگست کو اپنے ہی آئین میں جموں و کشمیر سے الحاق کا قانونی معاہدہ ختم کر کے مسلم اکثریت رکھنے والی ریاست جموں و کشمیر کو دو وفاقی خطوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس قدم نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی اور نیم خود مختار حیثیت ختم کر کے کشمیریوں کو مشتعل کر دیا تھا اور وہاں پانچ اگست سے سخت ترین پابندیاں اور لاک ڈاؤن جاری ہے۔
پاکستان اس مسئلے پر اقوام متحدہ سمیت عالمی سطح پر آواز اٹھا رہا ہے اور اس تناظر میں بھارت پر عالمی دباؤ میں اضافہ ہو رہا تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بھارتی حکام نے سوموار کی دوپہر 40 لاکھ پوسٹ پیڈ موبائل فون صارفین کے لیے سروسز بحال کر دی ہیں تاہم اس محدود سروس کے ذریعے وہ صرف فون کالز اور ٹیکس میسجز سے مستفید ہو سکیں گے۔
وادی میں موبائل فونز اور فکسڈ لائن نیٹ ورکس کے لیے انٹرنیٹ سروس تاحال معطل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بھارتی حکام نے اس سے قبل متنازع خطے میں لینڈ لائن فون سروس بھی بحال کرنے کا دعویٰ کیا تھا، تاہم مقامی افراد کا کہنا ہے کہ انہیں اس میں ابھی تک خلل کا سامنا ہے۔
محمد اکبر نامی ایک کاروباری شخص نے کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر میں اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں خوشی ہے کہ موبائل فون دوبارہ کام کر رہے ہیں تاہم انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے لیے نہایت سخت الفاظ کیے۔
انہوں نے کہا، ’موبائل فون ایک بزنس سروس ہے جس کے لیے ہم ادائیگی کرتے ہیں، یہ کوئی احسان نہیں۔ انہوں نے ہمارے بنیادی حقوق سلب کیے ہوئے ہیں۔ وہ پہلے پابندیاں عائد کرتے ہیں پھر ان میں نرمی کر کے ہم پر احسان جتاتے ہیں اور معمول زندگی معمول پر لانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔‘
قانون کے طالب علم معشوق نے اے ایف پی کو بتایا، ’دنیا بھر میں موبائل فون رکھنا معمول کی بات ہے لیکن یہاں کشمیر میں یہ ایک بہت بڑی بات سمجھی جا رہی ہے اور اسے کسی بھی وقت معطل کر دیا جاتا ہے۔‘
بھارت نے پانچ اگست کے یک طرفہ اقدام سے پہلے ہی وادی میں اضافی فوجی دستے تعینات کر دیے تھے۔ سینکڑوں سیاسی شخصیات، وکلا اور سیاسی کارکنوں کو نظر بند کیا ہوا ہے جبکہ نو سال کی عمر تک کے ہزاروں کشمیری نوجوان بغیر فرد جرم کے جیلوں میں قید ہیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کی سربراہ مشیل بیچلیٹ نے گذشتہ ماہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی صورتحال پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا تھا جبکہ واشنگٹن نے بھی نئی دہلی سے فوری طور پر کشمیر میں پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کیا تھا۔