درہ آدم خیل میں واقع فاٹا یونیورسٹی اس علاقے کا ایک غیر معمولی تعلیمی ادارہ ہے، جو پچھلے تین سال سے یہاں کے نوجوانوں کو دی جانے والی نئی سمت میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
اس یونیورسٹی میں پہلی مرتبہ اس سال 22 سے 25 خواتین نے بھی داخلہ لیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے کچھ طالبات اور خواتین سماجی کارکنوں سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ ادارہ کس طرح ان کے لیے مفید ثابت ہو رہا ہے۔
فاٹا یونیورسٹی میں بی ایس انگریزی کی طالبہ روحیلہ اسلام نے بتایا کہ اگر یہ یونیورسٹی نہ ہوتی تو انہیں پشاور یا کوہاٹ جانا پڑتا، لیکن اب وہ خوش ہیں کہ انہیں یہاں داخلہ مل گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روحیلہ نے بتایا کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد فاٹا یونیورسٹی میں ہی لیکچرار بننا چاہتی ہیں۔
سماجی کارکن نائلہ الطاف نے بتایا کہ خواتین پر کافی تبصرے کسے جاتے تھے، تنقید ہوتی تھی کہ آپ مخلوط تعلیمی نظام میں پڑھ رہی ہیں، یہ سٹیریو ٹائپ ہے، جسے کسی نہ کسی کو تو توڑنا ہے۔
ایک اور سماجی کارکن بشریٰ محسود نے بتایا کہ اس علاقے میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام سے خواتین کو سہولت ہوئی ہے، کیونکہ دور دراز علاقوں میں جانے سے طالبات کے گھر والوں کو بھی پریشانی ہوتی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب آپ کو خود پر اعتماد ہوگا تو آپ سب کام کرسکیں گے۔ ’ہر عورت سیاستدان، ڈاکٹر یا انجینیئر نہیں بن سکتی لیکن وہ اپنی سکلز کو بہتر بناکر آگے جاسکتی ہے۔‘
مکمل ویڈیو دیکھیے: