ڈگری کالج کا وسیع ہال طلبہ اور طالبات سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ طلبہ کے چہروں سے اچھے مستقبل کی امید جھلک رہی ہے۔ ساتھ میں خوف کا تڑکا بھی ہے کہ آنے والے دن کیسے ہوں گے؟ کیا انہیں وہ کرنے کا موقع ملے گا جو وہ کرنا چاہتے ہیں، ملازمتیں ملیں گی کہ نہیں؟
یہ احساس شاید پاکستان کی ہر درس گاہ میں دیکھنے کو ملے لیکن میں بات کر رہا ہوں ڈگری کالج، درہ آدم خیل کی جہاں کا ایک حصہ آج کل فاٹا یونیورسٹی ادھار کے طور پر اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ قبائلی نوجوانوں کو 2016 میں پہلی مرتبہ اپنے ہی علاقے میں ایک یونیورسٹی نصیب ہوئی اب وہ اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس سال اڑھائی سو نشتوں کے لیے 600 سے زائد طلبہ نے درخواستیں جمع کروائیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تعلیم کی طلب کتنی زیادہ ہے اور ایک یونیورسٹی شاید ان کے لیے کافی نہیں۔ سب سے حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اس سال 22 لڑکیوں نے بھی داخلہ لیا ہے۔ قلیل مدت میں یہاں پڑھنے والے نوجوانوں نے اپنی صلاحیتیں منوانا بھی شروع کردی ہیں۔ گذشتہ دنوں پولیٹیکل سائنس ڈپارٹمنٹ کے تیسرے سمسٹر کے طالب علم محمد حارث نے دیگر یونیورسٹیوں کے ساتھ تقاریر کے مقابلے میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔
یہ موقع تھا بلدیاتی نظام سے متعلق ایک سیمینار کا تاکہ نوجوان قبائلیوں کو اس کی اہمیت سے آگاہ کیا جاسکے۔ حاضر طلبہ نے مقررین کو سنا تو بڑے انہماک سے لیکن جب سوال جواب کی باری آئی تو سب نے اپنے تعلیمی مسائل زیادہ اٹھائے۔ کسی نے ٹرانسپورٹ تو کسی نے سہولتوں کی کمی کی بات کی۔ بلدیاتی انتخابات پر کوئی خاص بات نہیں کی گئی جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان کے لیے نمبر ایک مسئلہ تعلیم سے جڑے مسائل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موقع پر یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر شاہ نے طلبہ سے پہلے ان کے ذمے معمولی فیسیں بھی جمع کرانے کا مطالبہ کیا تاکہ ان کو سہولتیں مہیا کی جاسکیں۔ پسماندہ علاقے ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی طلبہ سے انتہائی کم فیس وصول کرتی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں وائس چانسلر پروفیسر طاہر شاہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اکتوبر 2016 میں آغاز سے یہاں کے نوجوانوں میں ’علم کی پیاس‘ دیکھی ہے۔
انہوں نے کہا: ’کئی لوگ اب کوشش کر رہے ہیں کہ سیٹیں بڑھائی جائیں تاکہ بڑی تعداد میں جن طلبہ کو داخلہ نہیں ملتا وہ ناامید نہ ہوں۔ اس مرتبہ ہم نے لڑکیوں کے لیے بھی داخلہ کھولا تو 20 سے 22 نے داخلہ لیا ہے جو بڑی حوصلہ افزا بات ہے۔‘
ڈگری کالج کی کھڑکی سے نئی یونیورسٹی شکل اختیار کرتے دیکھی جاسکتی ہے۔ سینکڑوں کنال پر محیط اس درس گاہ کی چار دیواری مکمل کر لی گئی ہے اور اب پانی کی ٹینکی اور دیگر ضروری انفراسٹرکچر پر تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے۔ لیکن اس کے مکمل ہونے اور کلاسوں کے اجرا میں ابھی کافی وقت ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر شاہ نے بتایا کہ داخلے کے دباؤ کو برداشت کرنے کے لیے انہوں نے کلاس میں طلبہ کی تعداد 30 سے بڑھا کر 40 کر دی تھی لیکن ان کے مطابق لڑکے اس میں مزید اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’ہمارے پاس جگہ کی کمی ہے اور ہم اس سے زیادہ طلبہ کو کلاس میں نہیں بٹھا سکتے ہیں۔ لڑکے ابھی بھی پریشان ہیں کہ کیا کریں۔‘
قبائلی طلبہ کو کن شعبوں کا زیادہ شوق ہے؟ وائس چانسلر نے بتایا کہ موجودہ سات ڈسپلنز میں مینیجمنٹ سائنسز کا کافی رش ہے، پھر انگلش، کمپوٹر سائنس اور جیالوجی میں بھی کافی دلچسپی ظاہر کی جا رہی ہے۔
ان کے بقول: ’تاہم ریاضی میں کم شوق ظاہر کیا جا رہا ہے۔‘
وائس چانسلر سے پوچھا کہ جن کالجوں سے یہ طلبہ پڑھ کر یونیورسٹی تک پہنچتے ہیں تو انہیں کیا وہ تیار دکھائی دیتے ہیں؟ جس پر ڈاکٹر طاہر شاہ کا کہنا تھا کہ انٹرمیڈیٹ کالجوں میں معیار شاید اچھا نہیں تو تعلیمی کمی تو محسوس ہوتی ہے۔
انہون نے کہا: ’میں نے اپنی فیکلٹی کو کہا ہوا ہے کہ وہ انہیں بنیاد سے لے کر آگے چلیں تو وہ اضافی وقت بھی انہیں دیتی ہے کہ جہاں جہاں ان کی کمزوریاں ہیں ان کو بھی پورا کیا جائے۔ یہ ہمارے بڑے باصلاحیت لڑکے ہیں جو کسی بھی شہری نوجوانوں سے کسی طرح بھی کم نہیں ہیں۔‘
اب تک کی سب سے بڑی کامیابی کے بارے میں جب دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ طلبہ تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ کھیل کود اور تقریری مقابلوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’ڈبیٹنگ میں ہمارے لڑکے نے حالی ہی میں تیسری پوزیشن حاصل کی ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ نئی یونیورسٹی کی عمارت کب تک مکمل ہو جائے گی، تو وی سی نے بتایا کہ ان کی کوشش ہے کہ دسمبر 2020 تک ایسا ہو جائے اور اگر تعمیراتی کام اسی طرح جاری رہا تو شاید وہاں جلد منتقل ہو جائیں۔
فاٹا یوتھ موومنٹ نامی قبائلی نوجوانوں کی ایک تنظیم کے سربراہ خیال اورکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ کو کئی مسائل درپیش ہیں جن میں سکالرشپ کی کمی، ہاسٹلوں کی عدم موجودگی اور بڑھتی ہوئی فیسیں شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’ہاسٹل پشاور میں ہے جہاں سے طلبہ کو بس میں لایا جاتا ہے اور بس کی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔‘
مسائل اپنی جگہ موجود ہیں لیکن بڑی تعداد میں قبائلی نوجوان پشاور اور ملک کے دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اپنی علم کی پیاس بجھانے کے لیے جاتے رہے ہیں لیکن اب اپنے گھر کے قریب اس سہولت کی دستیابی سے اس پیاس کو بجھانے اور ان علاقوں کو مرکزی دھارے میں لانے میں بڑی مدد ملے گی۔