تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کی تحریک نے اس وقت ایک سنجیدہ موڑ لیا جب انہوں نے اس کے لیے 27 اکتوبر کی تاریخ کا اعلان کیا۔ بعدازاں دھرنے کو آزادی مارچ کا نام دیا گیا اور اس کی اسلام آباد میں آمد چند دنوں کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
یہ کچھ اچھنبے کی بات نہیں کہ پارلیمانی نشست کھونے کے بعد 2018 کے انتخابی نتائج کی مذمت کرنے والے افراد میں مولانا فضل الرحمٰن سرفہرست تھے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے بھی مولانا کے احتجاج کی کسی نہ کسی طرح کی حمایت کا وعدہ کیا ہے۔ حکومت اور مظاہرین کے مابین مذاکرات کی کوششیں بھی جاری ہیں لیکن مولانا نے وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ انہیں فوج کی حمایت حاصل ہے، عمران خان نے صاف انکار کر دیا ہے۔ اس وقت پاکستان ایک غیریقینی سیاسی صورت حال سے دوچار ہے۔
یہاں جواب طلب سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن حکومت کو قبل از وقت اقتدار سے ہٹانے کے لیے جبر و طاقت کا استعمال کرنے میں حق بجانب ہے؟ کیا ہماری ساری حکومتوں کو اسی طرح مسلسل ڈانواں ڈول رکھا جانا چاہیے اور آخر کار انہیں نکال باہر کر دینا چاہیے؟
صرف پانچ سال پہلے تحریک انصاف نے عین پارلیمنٹ کے سامنے تقریباً چار ماہ کا طویل دھرنا دیا۔ مقصد مسلم لیگ کی حکومت کو گرانا تھا۔ دھرنا اپنے مقصد میں ناکام رہا لیکن عوام اور حکومت کو شدید نقصان پہنچا۔ حکومت نے پی ٹی آئی پر چینی صدر کے اہم دورے کو سبوتاژ کرنے کا الزام بھی لگایا جس کے دوران چین پاکستان اقتصادی راہداری سے متعلق معاہدوں پر دستخط ہونا تھے۔
پاکستان کی مختصر تاریخ میں بیشتر حکومتوں کو طاقت کے ذریعے نکالا گیا۔ باقی ماندہ حکومتیں اقتدار بچاؤ مہم میں اس قدر مصروف رہیں کہ انہیں کسی مثبت کام کی طرف دھیان دینے کا وقت ہی نہ ملا۔ ان نامساعد حالات کی وجہ سے ملک سیاسی اور معاشی میدان کے علاوہ خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی شدید مشکلات کا شکار رہا ہے۔
جب حکومتوں کا انتخاب آئینی عمل کے ذریعے کیا جاتا ہے تو انہیں غیر آئینی ذرائع سے ہٹانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ تمام فریق اس بات پر تو صد فیصد متفق ہیں کہ حکومتوں کی تشکیل انتخابی عمل کے ذریعے ہونی چاہیے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ جب ان کے اپنے مفادات داؤ پر لگ جاتے ہیں تو انہیں تشدد کا سہارا لینے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔
پی ٹی آئی حکومت کی اب تک کی مایوس کن کارکردگی سے عمران خان اور ان کی ٹیم کی نااہلی واضح ہو چکی ہے۔ حکومت انتخابات سے پہلے کیے ہوئے وعدے وعید پورا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اس میں اب کوئی شک نہیں کہ ایک بڑی مارکیٹنگ مہم کے ذریعے تحریک انصاف اور اس کے پسِ دیوار حامیوں نے اقتدار میں آنے کے لیے عوام کو سنہرے خواب دکھا کر انہیں دھوکہ دیا۔ 14 ماہ گزرنے کے باجود بھی حکومت نے معاشی حالات میں بہتری لانے کے لیے کوئی قابل تعریف اقدام نہیں اٹھایا بلکہ صرف انسداد بدعنوانی کے نعرے لگا کر عوام کو بیوقوف بنا رہی ہے۔
تاہم اگر انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے تو تحریک انصاف کا یہ کہنا کہ نتائج حاصل کرنے میں وقت درکار ہے، کچھ حد تک جائز نظر آتا ہے۔ مشرف کی طرح وہ بھی اصطبل کی صفائی مہم میں مصروف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ متوقع نتائج کی فراہمی کے لیے وہ ایک پوری مدت مانگتے ہیں۔ معروضی نظر سے ان کا مطالبہ اتنا غیرمعقول نظر نہیں آتا۔ آئیے اس بارے میں مختلف پہلوؤں پر ذرا روشنی ڈالیں۔
اولاً، آئین میں اسمبلی کی پانچ سال کی مدت مقرر ہے، جو وزیر اعظم کا انتخاب کرتی ہے۔ وزیر اعظم کو اپنے اعلان کردہ منشور پر عمل درآمد کے لیے پانچ سال کا وقت دیا گیا ہے۔ اس کے بعد لازم ہے کہ تازہ مینڈیٹ کے لیے عوام سے رجوع کیا جائے۔ آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش اس قابل مذمت روایت کا تسلسل ہو گا جس سے پہلے ہی قومی جمہوری نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ اس کے علاوہ نئے انتخابات پر اٹھنے والے حکومتی اور ذاتی اخراجات کے بارے میں بھی کچھ فکر لازم ہے۔ آئین میں دی گئی پانچ سالہ مدت بلا منطق نہیں ہے۔
ثانیاً، اگر پی ٹی آئی کی حکومت کو وقت سے پہلے چلتا کر دیا گیا تو پارٹی ایک مظلوم شکار بن کر سامنے آئے گی اور امکان ہے کہ اسے پہلے سے بھی زیادہ ہمدردی حاصل ہو جائے۔ دھرنے اور اپوزیشن کی قیادت کرنے والوں کی مشکوک ساکھ کو مدنظر رکھتے ہوئے لازم نہیں کے آئندہ انتخابات کے نتیجے میں کوئی نئی حکومت ہی تشکیل پائے۔ پی ٹی آئی کے پاس نوجوانوں کا ایک مضبوط ووٹ بینک ہے اور اسے صرف 15 یا 18 ماہ کے بعد ہونے والے انتخابات میں شکست دینا آسان نہیں ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ثلاثاً، عمران خان کو انتخابات سے قبل کیے گئے اپنے وعدے پورا کرنے کا موقع ملنا چاہیے تا کہ انہیں پتہ چل سکے کہ زبانی جمع خرچ جتنا آسان ہے، عمل اتنا ہی مشکل۔ وہ خود اور ان کے حواری اپنے وعدے دہراتے نہیں تھکتے، اب ان کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ان پر عمل کرکے دکھائیں۔ اگرچہ معاشی میدان میں حالات ابھی تک ابتر ہیں لیکن حال ہی میں میکرو سطح پر نظر آنے والی کچھ بہتری مائیکرو سطح پر اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔
اربعاً، اپنی تاریخ سے بھی تھوڑا بہت سبق سیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہو گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی مذکورہ بدانتظامیوں کے خاتمے کے لیے 1977 کے انتخابات میں پی این اے نے پیپلز پارٹی کے خلاف ایک انتخابی اتحاد بنایا تھا۔ مبینہ طور پر دھاندلی زدہ انتخابات کے بعد پی این اے نے حکومت کے خلاف ایک مہم شروع کی جس کا نتیجہ بالآخر جنرل ضیا کی فوجی آمریت کی صورت میں نکلا۔ ضیا الحق کی پالیسیوں کے گہرے منفی اثرات ابھی تک ہماری معاشرتی اور سیاسی زندگی میں نمایاں ہیں۔ اس بار بھی حالات کوئی غلط رخ اختیار کرنے کی صورت میں طاقت ور اداروں کی مداخلت کا جواز پیدا ہو سکتا ہے۔
خامساً، حکومتوں میں قبل از وقت تبدیلیاں ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی ہیں۔ ہم میں سے بیشتر 1988 سے 1999 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے مابین کھیلے گئے کھیل کے گواہ ہیں۔ یہ لُکّن چھپائی جنرل مشرف کے غیر آئینی طریقے سے اقتدار پر قبضہ کرنے پر ختم ہوئی۔ وہ 2008 تک اقتدار میں رہے۔ ان گمشدہ 20 سالوں کے منفی اثرات مزید کئی سالوں تک ہمیں نقصان پہنچاتے رہیں گے۔ اگر ہمارے قائدین ان تلخ حقائق سے سبق نہیں سیکھتے ہیں تو خمیازہ پاکستانی عوام کو بھگتنا پڑے گا جبکہ ان مسائل کے ذمہ داروں کو باآسانی کہیں باہر پناہ مل جائے گی۔
عمران خان اور ان کی شتر بے مہار ٹیم کو عوام الناس کی محرومی کی اصل وجوہات کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ عوام کی زندگیاں بہتر بنانے کے لیے انہیں معاشی میدان میں کچھ ٹھوس نتائج دکھانا ہوں گے۔ محض آئی ایم ایف پروگرام کا ورد کرنا اور کسی معجزے کی توقع کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہوگی۔ پاکستان اور بہت سے دوسرے ممالک میں آئی ایم ایف پروگراموں کی ناکامی سے سبق ملتے ہیں۔ ہمارے ہاں آئی ایم ایف کی سخت شر ائط کی سیاسی قیمت ادا کرنا آسان نہیں ہوتا لہذا حکومتیں وقت سے پہلے ہی پروگرام ختم کر دیتی ہیں۔ اسی لیے پاکستان ’یک قسط‘ ملک گردانا جاتا ہے۔ نتیجتاً معاشی حالات مزید خراب ہو جاتے ہیں۔
لازم ہے کہ معیشت کی ترقی کے لیے اختراعی اقدامات اٹھائے جائیں۔ رعونت اور غرور جیسی منفی خصلتیں تھوڑی دیر کے لیے بالائے طاق رکھ کر پچھلی حکومتوں کی کچھ کامیاب پالیسیوں اور منصوبوں پر ایک غیر جانبدارانہ نظر ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔